بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکیہ گانے سننا یا گانا


سوال

آج کل گانا سننا عام ہے تو جو بندہ یا بندی گانا سنتے ہیں ، سننے کے بعد دوبارہ اپنے منہ سے وہی گانا دوبارا گاتے ہیں جبکہ آج کل گانے میں کفریہ الفاظ ، شرکیہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں (جس  کے لیے گانے گائے جاتے ہیں انہیں معاذاللہ خدا کادرجہ دیا جاتا ہے) تو اس صورت میں گانے سننے والے غیر شادی شدہ کے ایمان میں فرق پڑے گا یا نہیں ؟ اگر شادی شدہ ہوا تو ایمان میں اور نکاح میں فرق پڑتا ہے یا نہیں ؟

جواب

گانا گانا اور اس کو سننا دونوں  حرام ہے ،ایک حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے،جس کا مفہوم یہ ہے کہ  گانا نفاق کو اس طرح پیدا کرتا جس طرح پانی کھیتی کو ،چہ جائیکہ ایسے گانے گانا یا سننا جو شرکیہ یا موہم شرک ہوں ، البتہ گانے سننے سے کوئی کافر تو نہیں ہوگا ،اور  نکاح پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا ، تاہم ایسے گانے گانے یا سننے والے  پر خوب توبہ و استغفار لازم ہے۔  ہاں  اگر کوئی  شرکیہ الفاظ پر مشتمل گانے  کے  مطابق اپنا عقیدہ  ہی بنا لے(یعنی پتا ہو کہ  اس میں شرکیہ الفاظ ہیں ،اور پھر کفر کے ارادے سےہی وہ گانے گائے یا سنے )  تو  یہ موجبِ کفر ہے ،اور اس صورت میں نکاح بھی ٹوٹ جائے گا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

" و عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع» . رواه البيهقي في «شعب الإيمان."

(کتاب الاداب ،باب البیان و الشعر الفصل الثالث جلد۳ ص: ۱۳۵۵  ط: المکتب الاسلامی ،بیروت) 

الدر المختار میں ہے:

"«استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق ‌والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه عليه الصلاة والسلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه» وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره اهـ"وفي الرد :عرف القهستاني الغناء بأنه ترديد الصوت بالألحان في الشعر مع انضمام التصفيق المناسب لها قال فإن فقد قيد من هذه الثلاثة لم يتحقق الغناء اهـ قال في الدر المنتقى: وقد تعقب بأن تعريفه هكذا لم يعرف في كتبنا فتدبر اهـ. أقول: وفي شهادات فتح القدير بعد كلام عرفنا من هذا أن التغني المحرم ما كان في اللفظ ما لا يحل كصفة الذكور والمرأة المعينة الحية ووصف الخمر المهيج إليها والحانات والهجاء لمسلم أو ذمي إذا أراد المتكلم هجاءه لا إذا أراد إنشاده للاستشهاد به أو ليعلم فصاحته وبلاغته، وكان فيه وصف امرأة ليست كذلك أو الزهريات المتضمنة وصف الرياحين والأزهار والمياه فلا وجه لمنعه على هذا، نعم إذا قيل ذلك على الملاهي امتنع وإن كان مواعظ وحكما للآلات نفسها لا لذلك التغني اهـ ملخصا وتمامه فيه فراجعه."

(الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الحظر و الاباحۃ ،349/6،ط:سعید)

تفسیر مظہری میں ہے :

"فلاتقعدوا معهم اى مع الذين يكفرون ويستهزءون حتى يخوضوا في حديث غيره اى غير الاستهزاء فحينئذ لا بأس بمجالستهم لضرورة دعت ومن غير ضرورة يكره مجالستهم مطلقا وقال الحسن لا يجوز مجالستهم وان خاضوا فى حديث غيره وفى هذه الاية اشارة الى ما نزل سابقا بمكة فى سورة الانعام وإذا رأيت الذين يخوضون في آياتنا فأعرض عنهم حتى يخوضوا في حديث غيره- قال الضحاك عن ابن عباس دخل فى هذه الاية كل محدث فى الدين وكل متبدع الى يوم القيامة إنكم ايها المؤمنون إذا يعنى إذا قعدتم عند من يكفرون ويستهزءون بالآيات ورضيتم به كفار مثلهم غير ان الرضاء بالكفر من غير تفوه نفاق أفرد كلمة مثل لانه كالمصدر او للاستغناء بالاضافة الى الجمع إن الله جامع المنافقين القاعدين عند الكفار الراضين بالكفر والاستهزاء والكافرين المستهزئين الخائضين فى القران في جهنم جميعا كما اجتمعوا فى الدنيا على الكفر والمجالسة."

(ج:2،ص:263،مکتبۃ الرشدیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں