بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت میں پیسے متعین کرنے کا حکم


سوال

ایک  بندے  کا  مچھلی کا کاروبار  ہے خود  اُس  نے  ایک کروڑ  روپے  اس کام  میں  لگائے   ہیں اورایک دوسرے آدمی سے اس نے  دس لاکھ  روپے لے کر کام میں لگائے ہیں کہ اس میں جو نفع ہوگا، اس سے میں آپ کو  فی کلو پانچ روپے نفع دوں گا۔

مذکورہ  کاروبار  کا طریقہ  کار شرعًا جائز ہے یانہیں ؟  اگر نہیں تو  جائز صورت بتادیجیے!

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  مذکورہ  بندے  کا فی کلو  پانچ  روپے  متعین  کرکے نفع   دینا جائز  نہیں ، اس  کی  جائز  صورت  یہ ہے کہ  نفع  كے فیصد  کے  اعتبار سے دونوں شریک  باہمی رضامندی  سے کوئی فیصد متعین کریں کہ   مذکورہ کاروبار  میں جو نفع ہوگا  اس میں مثلاً ایک کروڑ سرمایہ والا 80 فیصد نفع لے گا،اور دس لاکھ سرمایہ لگانے والا  20  فیصد نفع لے گا، الغرض باہمی رضامندی سےنفع كا جوبھی فیصد  متعین  ہوجائےوہ دینااورلینا  جائز ہوگا ،فی کلو پانچ روپے متعین کرنادرست نہیں ۔

مجمع الانہرمیں ہے:

"و شركة عنان: وهي أن یشترکا متساویین فیما ذکر أو غیر متساویین، و تتضمن الوكالة دون الكفالة  وتصح في نوع من التجارات أو في عمومها، و ببعض مال کل منهما و بکلّه و مع التفاضل في رأس المال و الربح و مع التساوي فيهما و في أحدهما دون الآخر عند علمهما و مع زيادة الربح للعامل عند عمل أحدهما و مع كون مال أحدهما دراهم و الآخر دنانير."

 (کتاب الشرکة/ج:2/ص:552/ط:دارالکتب )

ہدایہ میں ہے:

"و من شرطها أن یکون الربح بینهما مشاعا لا یستحق أحدهما دراهم مسماة من الربح؛ لأن شرط ذلک یقطع الشركة بینهما ولا بد منها کما في عقد الشركة."

(ہدایۃ، کتاب المضاربۃ، مکتبہ أشرفیہ دیوبند۳/۲۵۸)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"و أن یکون الربح جزءًا شائعًا في الجملة لا معینًا، فإن عین عشرة أو مائة أو نحو ذلک کانت الشركة فاسدة."

(ہندیۃ، کتاب الشرکۃ، الباب الأول،جدید زکریا دیوبند۲/۳۱۱)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144303100011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں