بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت فاسدہ کا حکم


سوال

ميری ایک فیکٹری ہے منرل واٹر کی ، اس میں تقریبا ایک کروڑ کی انوسٹمنٹ کی ہوئی ہے جس سے آمدنی ہوتی ہے، میرا ایک چھوٹا بھائی ہے جس نے مجھے پندرہ لاکھ روپے دئیے انوسٹمنٹ  کے لیے ، اس فیکٹری میں ان پیسوں کو لگے ہوئے 8 سال گذر چکے ہیں، میرے بھائی نے مجھے کہا کہ ہر ماہ پندرہ ہزار روپے مجھے دیتے رہو ، یہ سلسلہ شروع ہوگیا، میں اس کو پندرہ ہزار ہر ماہ دیتا رہا، اس کے علاوہ وہ بھائی اپنے گھر کے خرچ کے لیے راشن کے لے ہوں یا اسکے گھر کے بجلی/ گیس کے بل ، بیماری کی دوائی ، قربانی کا جانور خریدنے کے لیے ، وہ اس فیکٹری سے ہی لیتا رہا، ان پندرہ ہزار کے علاوہ اس دوران کچھ عرصہ کے بعد اس نے 8 لاکھ روپے نکال بھی لیے مگر میں اس کو اسی طرح پندرہ ہزار ہر ماہ دیتا رہا۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ میں اس کو اس کی موجودہ رقم واپس کرنا چاہتا ہوں، کیا میں وہ سارا خرچہ جو اس نے پندرہ ہزار کے علاوہ کیا ہے، بجلی/گیس کے بل اور قربانی کا جانور خریدنے میں اور گھر کے راشن کے لیے جو پیسے وہ لیتا رہا ہے، کیا وہ رقم میں کاٹ کر بقایا اس کے حوالے کروں جبکہ میں نے کوئی نیت نہیں کی تھی، ان پیسوں کی، بس بھائی سمجھ کر میں اس کو دے رہا تھا۔ یا جو رقم اس درمیان میں 8 لاکھ نکال لی، اب جو بقایا ہے وہ ساری واپس کردوں؟ ان آٹھ سالوں کے دوران فیکٹریکو جو نقصان ہوا ہے، کیا وہ بھائی بھی برابر کا شریک ہے نقصان میں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چھوٹے بھائی نے سائل(بڑے بھائی) کو پندرہ لاکھ روپے دئیے تھے اپنے ذاتی کاروبار میں لگانے کے لیےتو یہ معاملہ شرکت کا تھا، اور شرکت میں دونوں فریقین کا نفع کا تناسب فیصد کے اعتبار سے طے کرنا ضروری ہے، چناں چہ یہ طے کرنے سے  کہ چھوٹے بھائی کو ہر ماہ پندرہ ہزار ملیں گےاور نفع کا کوئی تناسب فیصد کے اعتبار سے طے نہ کرنے کی وجہ سے شرکت کا معاملہ فاسد ہوگیا تھا اور شرکتِ فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ  ہر ایک شریک اپنے سرمائے کے تناسب سے نفع نقصان کا حق دار ہوتا ہے، لہذا فریقین اپنے اپنے سرمائے کے تناسب سے نفع و نقصان  کا حساب لگالیں ، چوں کہ ابتداء میں  چھوٹے بھائی کے پندرہ لاکھ روپے لگے ہوئے تھے اور بقیہ پچاسی لاکھ بڑے بھائی کے، تو چھوٹا  بھائی کاروبار کے پندرہ فیصد نفع و نقصان کا مالک تھا، پھر جب اس نے آٹھ لاکھ روپے نکال دئیے تو اس  کے صرف سات لاکھ روپے رہ گیے، اب   کاروبار کے نفع و نقصان میں ان کی ملکیت کم ہوکر سات فیصد رہ جاتی ہے، چناں چہ اس طرح ان  آٹھ سالوں کے نفع و نقصان کا حساب کرکے  جتنی رقم کا چھوٹا بھائی  حق دار ہے، اگر وہ رقم اس کل مالیت سے زیادہ بنتی ہے جو ہر مہینہ  پندرہ ہزار کے حساب سے سائل (بڑا بھائی)  اس کو  دیتا تھا، تو زائد رقم چھوٹا بھائی  سائل(بڑے بھائی) سے وصول  کرے، تاہم اگر پندرہ ہزار روپے جو ہر مہینہ چھوٹے بھائی کو  دی جاتی تھی کی کل مالیت زیادہ بنتی ہے تو زائد رقم وہ سائل (بڑے بھائی) کو واپس کرے۔

  نیز اس دوران جتنے زائدخرچےسائل نے اپنے بھائی کے برداشت کیے (پندرہ ہزار روپے ماہوار کے علاوہ)وہ سب اس کی طرف سے تبرع و  احسان شمار ہوں گے، اور اب جبکہ چھوٹا بھائی اپنے پیسے واپس مانگ رہا ہےتو آٹھ لاکھ منہا کرکے بقیہ سات لاکھ سائل اس کو  واپس کردے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال ولا عبرة بشرط الفضل ) فلو كل المال لأحدهما فللآخر أجر مثله، كما لو دفع دابته لرجل ليؤجرها والأجر بينهما فالشركة فاسدة، والربح للمالك وللآخر أجر مثله، وكذلك السفينة والبيت، ولو لم يبع عليها البر فالربح لرب البر وللآخر أجر مثل الدابة."

(کتاب الشرکة، ‌‌فصل في الشركة الفاسدة، 4 / 326، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311100440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں