بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت فاسدہ میں انوسمنٹ کی واپسی کا حکم


سوال

 میرا کام پھل اور سبزیوں کا ہے. میں نے ایک شخص کے ساتھ معاملہ کیا اس طور پر کہ ہم دونوں کاروبار میں پیسے ملائیں گے اور پھل اور سبزی لیں گے ،اور آپ کیٹرینگ والوں سے آرڈر لیں گے اور ہم مال ان کو بیچیں گے ، اور جو نفع ہو گا وہ آدھا آدھا کریں گے ۔

میرے ساتھی نے ساٹھ ہزار لگائے،لیکن  میں نے پیسے نہیں لگائے ،میر اارادہ  یہ تھا کہ  جب آرڈر آنا شروع ہوں گے، تو میں بھی انوسمنٹ کر دوں گا، چناں چہ آٹھ ماہ تک ہمار امعاملہ چلا، لیکن کوئی خاص آرڈر نہیں ملا۔ ہم نےتقریبا دس ہزار تک کا نفع کمایا انداز اً اس آٹھ ماہ کے دور ان، میرے ساتھی نے کہا آپ مجھے اپنے پاس ہر ماہ تنخواہ پر رکھ لو،اور میرے پر وفٹ میں سے کچھ فیصد کم کر دینا۔ میں نے اس کی ماہانہ تنخواہ مقرر کر دی اور کچھ ذمہ داری بھی سونپ دی، ہمارا کار و باری معاملہ نہیں چل سکا نقصان ہو گیا، اب ہم اپنے معاملہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں. میر اسا تھی کہتا ہے کہ میں نے جور قم لگائی ہے ساٹھ ہزار، وہ پوری واپس کر دو لیکن  میرے ذہن میں ہے کہمیں نے اسکو تنخواہ کی مدمیں 70 ہزارروپے دےیے ہیں،  لہذا اب مجھے کوئی رقم واپس نہیں کرنی چاہیے،یا جس طرح ہم کاروبار میں نفع میں شریک تھے اسی طرح نقصان میں بھی شریک ہونگے.

جواب

 واضح رہے کہ جو معاملہ جانبین نے آپس میں طے کیا تھا ، فریق ثانی کا رقم نہ لگانے کے سبب وہ معاملہ شرعاً صحیح نہیں ہوا، لہذا فریق اول جس نے 60000 روپے  کاروبار میں انوسٹ کیاتھا، اس کو اپنی رقم پوری کی پوری  واپس مل جاۓگی، نیز  اس نے جو فریق ثانی سے 70000 روپے  تنخواہ کی مد میں لیے ہیں،وہ واپس کرے، کیوں کہ وہ ناحق لیا ہے، اب یا تو آپس میں کٹوتی کرے یا ہر ایک اپنے  ذمہ کی رقم ادا کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما شركة العنان فهي أن يشترك اثنان في نوع من التجارات  ........  وأما شرط جوازها فكون رأس المال عينا حاضرا أو غائبا عن مجلس العقد لكن مشارا إليه، والمساواة في رأس المال ليست بشرط ويجوز التفاضل في الربح مع تساويهما في رأس المال، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الشركة، الباب الثالث في شركة العنان،الفصل الأول في تفسير شركة العنان وشرائطها وأحكامها،319/2،ط:رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والربح إلخ) حاصله أن ‌الشركة ‌الفاسدة ‌إما ‌بدون ‌مال ‌أو ‌به ‌من ‌الجانبين ‌أو ‌من ‌أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجرا؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في قفيز الطحان والثالثة لرب المال وللآخر أجر مثله."

(‌‌كتاب الشركة،‌‌فصل في الشركة الفاسدة،326/4، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101058

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں