بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت یا مضاربت کی بنیاد پر رقم لگانا اور نفع اور نقصان کی تقسیم کا طریقہ


سوال

میری ایک بڑی بہن ہے جو کہ شادی شدہ ہے اور اُن کا شوہر بھی کمانے والا ہے، لیکن میری بہن اپنے شوہر کے پیسے اُن کی اجازت سے  میرے کاروبار میں لگانا  چاہتی ہیں  اور کہتی  ہیں: یہ پیسے آپ اپنے کاروبار میں لگائیں  اور جو فائدہ ہوگا  اس کا  چوتھائی حصہ یعنی پچاس ہزار اگر میں کماتا ہوں تو دس ہزار کا بجٹ میں اپنے بہن کو دوں گا اور دوسری بات اگر بہن مجھے دو لاکھ دیتی ہے اور ایک لاکھ میں لگاتا ہوں ٹوٹل تین لاکھ کی اگر میں خریداری کرلوں اور آگے میں تین لاکھ سے چار لاکھ بناؤں تو اس میں میری بہن کا کتنا حصہ ہوگا اور میرا؟

جواب

کاروبار میں سرمایہ لگاکر جائز نفع حاصل کرنے کے لیے شرعًا یہ ضروری ہے کہ حاصل شدہ منافع میں فیصد / حصص کے اعتبار سے تقسیم ہو،  یعنی یہ طے ہوجائے کہ اس سرمایہ سے جتنا نفع ہوگا اس کا اتنے فیصد ایک فریق اور اتنے فیصد دوسرے فریق کا ہے۔

اب اگر صورتِ  مسئولہ میں پیسے آپ  کے بہنوئی کے ہوں جو آپ کی بہن  آپ کے کاروبار کے لیے دے اور محنت  آپ کی ہو تو   یہ معاملہ شریعت میں "مضاربت" کا شمار ہوتا ہے۔ اس میں نفع  کے فیصد کے حساب  سے نفع کی تقسیم کا تناسب مقرر کرلیا جائے کہ جو بھی نفع ہوگا اس کا آدھا آدھا تقسیم ہوگا یا آپ کا 75 فیصد اور آپ کی بہن کا 25 فیصد ہوگا، اور  اگر خدانخواستہ  کاروبار میں نقصان ہو تو  اس کا حکم یہ ہے کہ اولًا خسارہ نفع میں سے پورا کیا جائے گا، اگر خسارہ پورا ہونے کے بعد بھی کچھ نفع باقی رہتاہے تو نفع کا جو تناسب باہمی رضامندی سے طے ہوا ہو ، اسی اعتبار سے بقیہ نفع تقسیم کیا جائے گا، اور اگر کل نفع خسارے میں چلا گیا تو مضارب (ورکنگ پارٹنر) کو کچھ نہیں ملے گا، اور انویسٹر کو بھی نفع نہیں ملے گا، اور اگر نفع کے  ساتھ  ساتھ  سرمائے میں سے بھی کچھ رقم یا کل رقم ڈوب گئی تو  رب المال (سرمایہ دار) کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا، بشرطیکہ مضارب  (ورکنگ پارٹنر) کی طرف سے تعدی  اور کوتاہی ثابت نہ ہو۔

اور اگر معاملہ یوں ہو کہ آپ کے  بہنوئی کے پیسوں کے ساتھ آپ کے بھی پیسے لگے ہوئے  ہوں تو  یہ معاملہ شرعًا "شراکت" ہے، اس میں بھی نفع کی تعیین  نفع کے فیصد/حصص کے اعتبار سے کرنا ضروری ہے،  مثلاً نفع دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا، یا کسی ایک فریق کے لیے ساٹھ فیصد اور دوسرے کے لیے چالیس فیصد یادونوں کے سرمایہ کے بقدرنفع تقسیم کیاجائے، یا اگر دونوں شریک کام کرتے ہوں اور ایک شریک زیادہ محنت کرتاہے یاکاروبار کوزیادہ وقت دیتاہے تو اس کے لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانادرست ہے، اورنفع کے حصول کےیہ طریقے جائز ہیں۔ اگر دونوں شریک ہیں، لیکن ایک شریک کام کرتاہے دوسرا شریک کام نہیں کرتا تو جو کام کرتاہے اس کے لیے نفع کا تناسب سرمائے کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا درست ہوگا، لیکن جو شریک کام نہیں کرتا اس کے لیے نفع کا تناسب اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ ایسی صورت میں سرمائے کے تناسب سے نفع تقسیم ہوگا۔

اور شرکت میں نقصان ہونے کی صورت میں ہر فریق کا اپنے سرمایہ کے بقدر نقصان ہوگا۔

لہذا اگر آپ کی بہن آپ کو  دو لاکھ شرکت کے طور پر دیتی اور آپ کے ایک لاکھ روپے ہوں،اور  نفع یہ طے ہو کہ چوتھائی یعنی 25 فیصد آپ کی بہن کو اور  75 فیصد آپ کا  تو اس صورت میں ایک لاکھ نفع ہونے کی صورت میں 25000 آپ کی بہن کے ہوں گے اور 75000 آپ کے ہوں گے۔

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه ) وهو التفاضل في المال والتساوي في الربح  وقال زفر والشافعي: لايجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلى ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثاً فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان؛ إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل، ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان؛ فيستحق بقدر الملك في الأصل.

ولنا قوله عليه السلام: الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين. ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة، وقد يكون أحدهما أحذق وأهدى أو أكثر عملاً فلايرضى بالمساواة؛ فمست الحاجة إلى التفاضل. قيد بالشركة في الربح؛ لأن اشتراط الربح كله لأحدهما غير صحيح؛ لأنه يخرج العقد به من الشركة، ومن المضاربة أيضاً إلى قرض باشتراطه للعامل، أو إلى بضاعة باشتراطه لرب المال، وهذا العقد يشبه المضاربة من حيث أنه يعمل في مال الشريك ويشبه الشركة اسماً وعملاً فإنهما يعملان معاً، فعملنا بشبه المضاربة وقلنا: يصح اشتراط الربح من غير ضمان وبشبه الشركة حتى لاتبطل باشتراط العمل عليهما. وقد أطلق المصنف تبعاً للهداية جواز التفاضل في الربح مع التساوي في المال، وقيده في التبيين وفتح القدير بأن يشترطا الأكثر للعامل منهما أو لأكثرهما عملاً". (5/188)

"مبسوط سرخسی" میں ہے:

"والشريكان في العمل إذا غاب أحدهما أو مرض أو لم يعمل وعمل الآخر فالربح بينهما على ما اشترطا؛ لما روي أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنا أعمل في السوق ولي شريك يصلي في المسجد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعلك بركتك منه"، والمعنى أن استحقاق الأجر بتقبل العمل دون مباشرته والتقبل كان منهما وإن باشر العمل أحدهما، ألا ترى أن المضارب إذا استعان برب المال في بعض العمل كان الربح بينهما على الشرط أو لا ترى أن الشريكين في العمل يستويان في الربح وهما لا يستطيعان أن يعملا على وجه يكونان فيه سواء، وربما يشترط لأحدهما زيادة ربح لحذاقته وإن كان الآخر أكثر عملاً منه، فكذلك يكون الربح بينهما على الشرط ما بقى العقد بينهما وإن كان المباشر للعمل أحدهما ويستوي إن امتنع الآخر من العمل بعذر أو بغير عذر لأن العقد لا يرتفع بمجرد امتناعه من العمل واستحقاق الربح بالشرط في العقد".(11/287،دارالفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201078

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں