بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت میں نقصان کی صورت اور اس کا حل


سوال

زید نے 2013 میں اپنے دوست بکرکے ساتھ مل کر ایک پلاٹ 8 کروڑ 10 لاکھ روپے میں خریدا، جو کہ بکر کے ایک سرمایہ کار کے نام پر کاغذی طور پر منتقل کرایا گیا، ان کا کام پلاٹ خرید کر اسے تعمیر کرکے اسے آگے فروخت کرنے کا تھا، مذکورہپلاٹ کی خریداری میں 6کروڑ 60لاکھ روپے بکرکے تھے، جبکہ 1کروڑ 50لاکھ روپے زیداور زید کے سرمایہ کار دوستوں کے تھے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے: 1- زید: 30لاکھ50ہزار روپے، 2- خالد: 52 لاکھ 50 ہزار  روپے، 3- حارث: 45 لاکھ روپے، 4- اور طاہر: 22 لاکھ روپے، زید نے بکر کے ساتھ اس کے 6 کروڑ 60 لاکھ روپے کے متعلق اور اپنے اور اپنے سرمایہ کار دوستوں کے 1 کروڑ 50 لاکھ روپے کے متعلق کسی قسم کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں کیا، کیونکہ یہ سب زید کے ساتھ کافی وقت سے کام کرنے کی وجہ سے مطمئن تھے اور باقاعدہ کوئی نفع کی حد طے نہیں ہوئی اور نہ لکھی گئی، مذکورہ پلاٹ پر تعمیراتی کام کا آغاز2014 میں ہوا، تعمیر کے لیے سرمایہ کا انتظام اسی عمارت کے فلیٹس اور گراؤنڈ فلور کو بکنگ کے ذریعے قسطوں پر بیچنے سے کیا گیا، کل آٹھ فلیٹ تھے اور تعمیر زید کروا رہا تھا، کافی کام ہوچکا تھا، مذکورہ بلڈنگ میں زید کے ایک دوست محسن نے فرسٹ فلور کے کل 2فلیٹ 2  کروڑ15 لا کھ روپے میں قسطوں پر خریدے اور بک کرادیے (ایک فلیٹ 95لاکھ روپے میں اور دوسرا فلیٹ 1کروڑ 20لاکھ روپے میں) جس کا تحریری معاہدہ بکرکے ساتھ ہوا اور بیعانہ کی رقم 30 لاکھ روپے بھی بکرکے ہاتھ میں دی گئی، جو کہ مشترکہ بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوئی اوربعدمیں محسن کی طرف سے قسطوں کی ادائیگی جاری رکھی گئی، جس میں محسن نے 53 لاکھ روپے دیے، محسن نے بیعانہ کی مد میں 30 لاکھ روپے اور قسطوں کی مد میں 53 لاکھ روپے (کل 83 لاکھ روپے)جو ادا کیے، وہ تعمیراتی کاموں میں صرف ہوئے اور یہ زید نے صرف کیے تھے۔

2016 کے اوائل میں کچھ دوسرے کاروباری معاملات میں نقصان اور کسی شریر شخص کی شرپسندی کی وجہ سے بکر کا رویہ تبدیل ہونا شروع ہوا، لیکن زید نے پھر بھی کسی بھی نقصان سے بچنے کی خاطر تعمیراتی کام بکرکے کہنے کے مطابق جاری رکھا اور بکرسے ہفتہ وار حساب کتاب کرتا رہا، یہاں تک کہ ستمبر 2016 میں زید نے حج پر روانگی سے قبل تمام تر حساب بکرکے حوالے کردیا،زید کی حج سے واپسی کے بعدبکرنے کسی کاغذی کاروائی کے بہانے سے اس پلاٹ کے تمام کاغذات جو کہ زیدکے پاس ہوتے تھے، منگوالئے اورزید نے بکر پر اعتماد کرتے ہوئے، وہ اس کے حوالے کردیے اور پھر بکر آہستہ آہستہ حساب کتاب سے بھاگنے لگایہاں تک کہ ملنے جلنے سے انکار کر دیا، اپریل2017 میں محسن نے اپنے فلیٹوں کی مد میں بقایا رقم 1کروڑ32 لاکھ روپے زید کو ادا کیے (واضح رہے کہ فلیٹوں کی باقی 83لاکھ روپے کی رقم بیعانہ اور قسطوں کے طور پر محسن پہلے ہی ادا کر چکا تھاجو کہ تعمیراتی کاموں میں صرف ہوئی) زید نے حساب کتاب کےلیے بکرسے ملاقات کی بہت کوششیں کیں اور ملاقات نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ 1کروڑ 32لاکھ روپے کی رقم متوقع منافع کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے چار سرمایہ کاروں میں سے تین کے درمیان کچھ اس طرح تقسیم کر دی: زید کی اصل رقم 30 لاکھ 50 ہزار روپے تھی، 1 لاکھ نفع ملاکر اسے 31 لاکھ 50 ہزار روپے دیے، حارث کی اصل رقم 45 لاکھ روپے تھی، 22 لاکھ 50 ہزار نفع ملاکر اسے 67 لاکھ 50 ہزار روپے دیے اور  طاہر کی اصل رقم 22 لاکھ روپے تھی، 11 لاکھ نفع ملاکر اسے 33 لاکھ روپے دیے، جبکہ ایک سرمایہ کار خالدکو کچھ بھی ادائیگی نہیں کی گئی، خالد کے سرمایہ کی رقم 52 لاکھ 50 ہزار روپے تھی،خالدکو سرمایہ ونفع کی ادائیگی مؤخر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ دیگر سرمایہ کاروں کی ضرورت زیادہ تھی، زید نے پہلے حارث اور طاہر کو 50 فیصد اصل رقم پر نفع دیا، پھر ایک لاکھ روپے نفع کے طور پر بچے تو خود رکھ لیے اور خالد کو کچھ بھی نہیں دیا، واضح رہے کہ مندرجہ بالا پروجیکٹ کا ممکنہ متوقع منافع کم و بیش 100 فیصد تھا، یعنی آئندہ یہ امید تھی کہ مثلاً اگر یہ فلیٹ ایک لاکھ کا ہے تو اس پر 100 فیصد نفع یعنی ایک لاکھ کا نفع لازمی آئے گا، اس اثناء میں کاغذات ہتھیانے کے بعدبکرنے بہت خاموشی سے اس بلڈنگ کے ایک کے علاوہ تمام (سات)فلیٹوں کو بیچ دیااور سارا پیسہ ہضم کر لیا، زیدنے معاملہ کھلنے پربہت کوششوں کے بعد وہ نہ بکنے والا ایک فلیٹ بکرسے حاصل کیا اور یہ وہی دو فلیٹوں میں سے ایک فلیٹ تھا جس کی بکنگ محسن کی جانب سے1 کروڑ20 لاکھ روپے میں ہوئی تھی اور زید نے اسے فوراً محسن کے نام منتقل کردیا، حالانکہ محسن کا ایک اور فلیٹ جو 95 لاکھ روپے میں اس نے بک کروایا تھا، اس کو اب تک نہیں مل سکا،  ساتھ ہی بکرنے محسن کی جانب سے کرائی گئی بکنگ کو سرے سے ماننے سے ہی انکار کردیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ اس نے جو فلیٹ زید کو واپس کیا ہے آٹھ فلیٹوں میں سے، وہ زید کی جانب سے کی گئی1 کروڑ50 لاکھ روپے کی اصل سرمایہ کاری کی واپسی ہے، گویا اس نے اپنے زعم کے مطابق زید کی اصل رقم واپس کردی ہے، کیونکہ بکر کی دانست میں اس وقت تک اس فلیٹ کی قیمت 1 کروڑ 50 لاکھ روپے ہو چکی تھی جبکہ محسن نے اس کی بکنگ 1 کروڑ 20 لاکھ روپے میں کی تھی اور محسن نے بیعانہ اور قسطوں کی مد میں 83 لاکھ روپے جو دیے تھے، وہ زید نے تعمیرات پر صرف کردیے تھے، بکر کا خیال تھا کہ اب وہ صرف یہ پیسے (83 لاکھ روپے جو تعمیر پر خرچ ہوئے اور وہ محسن نے دیے تھے) زید کو واپس دے گا، حالانکہ بکر نے 83 لاکھ روپے کی ادائیگی کے وقت بھی اس میں سے مزید 33 لاکھ روپے فرضی بقایاجات و حسابات کی مد میں کاٹ لیے تھے اورصرف 50لاکھ روپے کی ادائیگی کی تھی، جس کے بدلے اس نے زید سے اسٹامپ پیپر پر رسید بھی لی تھی کہ اب ہم دونوں (زید اور بکر) کے درمیان کسی قسم کا کوئی لین دین باقی نہیں ہے اور اس پر زید کے دوسرے سرمایہ کار ساتھی پھی راضی تھے اور سب نے آپس میں معاملے کو اس پر ختم کردیا اور لین دین ختم کردیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ:

(الف) سرمایہ کاروں کے1 کروڑ 50 لاکھ روپے کی اصل سرمایہ کاری کے بدلے ایک فلیٹ جو بکر کی جانب سے واپس دیا گیا تھا جو بعد میں محسن کے نام منتقل بھی کردیا گیا تھا، اس کی بکنگ محسن نے تو 1 کروڑ 20 لاکھ روپے میں کراوائی تھی نہ کہ 1 کروڑ 50 لاکھ روپے میں۔

(ب) محسن کو اب تک 95 لاکھ روپے کی مالیت کا کوئی دوسرا فلیٹ نہیں مل سکا، کیونکہ بکر نے سارے فلیٹ بیچ دیے تھے جس میں 95 لاکھ والا فلیٹ بھی تھا، جبکہ محسن نے تو دونوں فلیٹوں کی مد میں طے شدہ رقم 2 کروڑ 15 لاکھ روپے ادا کر دیے تھے، نیز یہ فلیٹ محسن نے ایک دوست کی حیثیت سے زید کی وجہ سے بک کرائے تھے کہ چلو زید میرا دوست ہے تو اسی سے فلیٹ خرید لیتا ہوں۔

(ج) محسن کا کہنا ہے کہ چلو 1 کروڑ 20 لاکھ والا فلیٹ چونکہ زید کو 1 کروڑ 50 لاکھ میں پڑا ہے تو میں اپنے 30 لاکھ چھوڑنے کو تیار ہوں، گویا میں نے اسے 1 کروڑ 50 لاکھ میں خریدا،  لیکن مجھے اپنے 95 لاکھ روپے والے فلیٹ کے بدلے میں سے 30 لاکھ نکال کر بقیہ65 لاکھ روپے کی رقم چاہیے اور میں اس کا متقاضی ہوں اور اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کاروبار میں تو نفع نقصان ہوتا ہے، مگر میں نے تو کاروبار نہیں کیا، بلکہ ایک چیز خریدی تھی اور وہ خریداری بھی زیدکی دوستی کی خاطر  کی تھی، اس لیے جیسے بھی ہو،میرے 65 لاکھ روپے کا نقصان پورا کیا جائے۔

(د) 1 کروڑ 32 لاکھ روپے جو کہ محسن کی جانب سے وصول ہوئے تھے، سرمایہ کاروں میں سے زید، حارث اور طاہر میں تقسیم ہوئے اور ان حضرات کو اوپربیان کیے گئے حساب کے مطابق اپنے سرمایہ سے زائد رقم مل چکی ہے اور خالدکو اب تک کچھ بھی ادا نہیں کیا گیا۔

(ہ) تعمیرات پر خرچ کیے گئے 83 لاکھ روپے کے بدلے بکر کی جانب سے اضافی اخراجات نکالنے کے بعد جو 50 لاکھ روپے واپس ملے تھے، وہ تو ہماری طرف سے سرمایہ کاری کی مد میں نہیں دیے گئے تھے، بلکہ وہ 83 لاکھ روپے تو محسن کی طرف سے ادا کیے گئے تھے اور یہ بیعانہ اور قسطوں کے پیسے تھے، جبکہ ان پیسوں کو بکرنے کسی بکنگ کے بدلے وصولی ماننے سے انکار کر دیا ہے اور وہ ان پیسوں کو بھی زیدکی جانب سے تعمیرات کی مد میں دیے گئے پیسوں میں شمار کرتا ہے۔

(و) اب بکر مزید کسی بھی قسم کے حساب کتاب کرنے اور نفع کی ادائیگی سے قطعاً انکاری ہوچکا ہے اور ہمارا حساب کتاب ختم ہوچکا ہے، اب پریشانی یہ ہے کہ جو رقم زید نے تقسیم کردی(1 کروڑ 32 لاکھ روپے) اور جو تقسیم کرنا باقی ہے(50 لاکھ روپے)، اس کے حوالے سے پریشان ہیں کہ کیسے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔

لٰذا اسی تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے میں آپ سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں:

1- چار سرمایہ کاروں میں سے تین کو جو متوقع منافع کی صورت میں ان کے اصل سرمایہ سے جو اضافی رقم ملی ہے، کیا وہ موجودہ صورتحال میں قابل واپسی ہے؟ جبکہ سرمایہ کاروں میں سے ایک سرمایہ کار کو اپنا اصل سرمایہ بھی ابھی تک نہیں ملا ہے؟

2- بیان کردہ صورتحال میں سرمایہ کاروں کی اصل رقم1 کروڑ 50 لاکھ روپے کے بدلے میں 1 کروڑ 32 لاکھ روپے ہی ملے ہیں اور 18 لاکھ روپے نقصان میں ہیں تو اس صورت میں سرمایہ کار بھی نقصان میں حصہ دار ہوں گے یا پھر وہ نقصان زید کوپورا کرنا ہوگا؟

3- محسن کی جانب سے کیے جانے والا 65 لاکھ روپے کا تقا ضا پورا کرنا زیدکی ذمہ داری بنتی ہے یا نہیں؟

4- 50 لاکھ روپے کی جو رقم بکر کی جانب سے ادا کی گئی ہے جو ابھی تقسیم کرنا باقی ہے، آیا وہ رقم محسن کودی جائے گی یا سرمایہ کاروں کو یا پھر اس کا کوئی اور طریقہ کار ہوگا؟

جواب

1 تا 4- صورتِ مسئولہ میں سائل کی فراہم کردہ تفصیل کے مطابق چونکہ زید اور بکر نے آپس کی شراکت داری اور لین دین کو تمام تر حساب و کتاب کے بعد سب کی رضامندی سے ختم کردیا تھا اور اس بات پر دونوں فریق متفق ہوگئے تھے کہ اب آپس میں ان کا کوئی لین دین باقی نہیں رہا، نیز محسن نے اپنے بکنگ کیے ہوئے دو فلیٹوں کی 2 کروڑ 15 لاکھ روپے کی رقم بھی چونکہ زید کو دے دی تھی اور وہ اس طرح کہ 30 لاکھ بیعانہ کے جو بکر کو دیے تھے، اسے زید نے تعمیر پر صرف کیا، اسی طرح قسطوں کی مد میں 53 لاکھ بھی زید کو دیے، یہ بھی زید نے تعمیر پر صرف کیے اور باقی 1 کروڑ 32 لاکھ روپے بھی زید کو دیے تھے، جو اس نے تین سرمایہ کاروں میں بانٹے تھے، اس لیے اب تقسیم کی صورت میں سب سے پہلے محسن کو اس کی  بقایا65 لاکھ روپے کی رقم ادا کرنا لازم ہے جس کا وہ مطالبہ بھی کررہا ہے، حالانکہ اس نے اپنے 95 لاکھ میں سے 30 لاکھ چھوڑ بھی دیے ہیں۔

لہٰذا اس کا طریقہ کار یہ ہونا چاہئے کہ جو رقم زید نے تین سرمایہ کاروں میں بانٹی ہے، وہ واپس لے لے، کیوں کہ نفع طے نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ معاملہ شرکتِ فاسدہ کا ہوا اور اس میں نفع ہر شریک کو اس کے سرمایہ کے حساب سے ملنا چاہئے اور نقصان میں بھی ہر شریک اپنے سرمایہ کے حساب سے شریک ہونا چاہئے۔

چنانچہ مذکورہ صورت میں سرمایہ کاروں میں تقسیم کی گئی رقم چونکہ 1 کروڑ 32 لاکھ روپے تھی اور 50 لاکھ روپے اسے مزید بکر نے دیے تھے، ان سب کو ملایا جائے تو 1 کروڑ 82 لاکھ روپے بنتے ہیں، اس میں سے 65 لاکھ روپے محسن کو دے دیے جائیں، پھر باقی 1کروڑ 17 لاکھ روپے چاروں سرمایہ کاروں میں اس طرح بانٹ دیے جائیں، یعنی زید کو 2378961 روپے، خالد کو 4095000 روپے، حارث کو 3510000 روپے اور طاہر کو 1715922 روپے دے دیے جائیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تبطل أيضا (بإنكارها) وبقوله: لا أعمل معك فتح (وبفسخ أحدهما) ولو المال عروضا.

وفي الرد: (قوله: بإنكارها) أي ويضمن حصة الآخر، لأن جحود الأمين غصب كما في البحر، سائحاني (قوله: وبقوله: لا أعمل معك) هذا في المعنى فسخ فكان الأولى تأخيره عن قوله: وبفسخ أحدهما، وفي البحر عن البزازية: اشتركا واشتريا أمتعة، ثم قال أحدهما: لا أعمل معك بالشركة وغاب، فباع الحاضر الأمتعة، فالحاصل للبائع، وعليه قيمة المتاع، لأن قوله: لا أعمل معك فسخ للشركة معه، وأحدهما يملك فسخها وإن كان المال عروضا."

(ج:4، ص:327، کتاب الشرکة، فصل في الشركة الفاسدة، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144306100771

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں