بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت میں ہر شریک اپنے سرمایہ کے بقدر نقصان برداشت کرے گا


سوال

زید نے ایک کاروبار شروع کیا جس میں تقریباً دس لاکھ کا کاروبار تھا اور اس کو دیکھ کر عمرو نے پانچ لاکھ دے کر کاروبار میں شرکت کی خواہش ظاہر  کی اور طے یہ پایا کہ نفع نقصان کے مالیت کے اعتبار سے شریک ہوں گے ۔ یعنی خدا نخواستہ اگر کاروبار میں نقصان آتا ہے تو اس صورت میں آپ کی مالیت کی بقدر نقصان میں آپ کو شریک کیا جائے گا لیکن الحمد للہ کوئی نقصان نہ ہوا اور معاہدے کے مطابق  چھ ماہی پانچ لاکھ پر نفع ملتا رہا اور کاروبار میں روز بروز ترقی ہوتی رہی اس صورت حال کو دیکھ کر عمر نے مزید روپے کاروبار میں ڈالنے کی خواہش کا اظہار کیا اور گذشتہ معاہدے کے تحت ( کہ نفع و نقصان میں مالیت کے بقدر شریک ہوں گے ) عمرو کےروپے کاروبار میں ڈال دیے اور آخر میں کاروبار تقریباً 45 لاکھ تک جا پہنچا اور اس میں عمرو کا 17 لاکھ شامل تھا اور برابر کانفع بھی چھ ماہی حساب سے ملتا رہا اور یہ کاوبار چار سال تک چلتا رہا، اب زید نے کاروبار کو بڑھانے کا سوچا ،عمرو کے ساتھ چونکہ شراکت تھی اس لیے اس مشورہ کیا کہ دکان کریانہ کے ساتھ سویٹس کا کاروبار بھی کیا جائے اور وہ اس پر متفق ہوئے لیکن ہوا یہ کہ سویٹس میں آہستہ آہستہ نقصان ہونے لگا  کیونکہ سویٹس پر جو رقم لگی تھی وہ کریانہ ہی کی تھی ،اب اس میں نقصان کی وجہ سے دونوں طرف نقصان ہونے لگا  ،عمرو  کو آگاہ بھی کردیا کہ کاروبار میں نقصان آنے لگا ہے ،ہم نے باہم مشورہ کر کے چھ ماہ کے بجائے ایک سال کے بعد آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا ،اب ایک سال کے بعد آڈٹ کیا تو سراسر نقصان دیکھا،اس صورت حال سے جب عمرو کو مطلع کیا تو کہنے لگامیں صرف نفع میں شامل ہوں نقصان میں نہیں جب کہ گذشتہ دو سال ہر چھ ماہی آڈٹ کے بعد اپنا نفع برابر وصول کرتے رہے اب زید نے ان کی یہ بات سن کر دو ماہ کے اندر پورے کاروبار کی مالیت کا حساب لگایا، نتیجہ یہ ہوا کہ ٹوٹل سامان ایک لاکھ پچاس ہزار کی مالیت کا باقی رہا ،اب حوصلہ نہ رہا اور  ایک لاکھ پچاس ہزار کا سامان بیچ کر بچا کچا تقسیم کرنا چاہا اور اس کا مشورہ شراکت دار عمرو سے کیا تو انہوں سے جواب میں کہا ہمیں بس اپنا 17 لاکھ پورا چاہیے، جبکہ سامان ٹوٹل ایک لاکھ پچاس ہزار کا ہے۔ اس صورت مسئلہ کے بعد زید پوچھنا یہ چاہتا ہے کہ شریعت کا حکم زید کے لیے کیا ہے ؟آیا زید پورے سترہ لاکھ واپس کرنے کا پابند ہے یا ایک لاکھ پچاس ہزار میں سے جو حصہ عمرو کا بنتا ہے زید وہ دینے کا پابند ہے؟

جواب

صورت  مسئولہ میں زید اور عمرو نے شرکت کی ابتداء میں سرمایہ کےبقدر نفع ونقصان میں شریک ہونے کا معاہدہ کیا تھا ،لہذا اب جب کاروبار میں نقصان ہوا ہے تو عمرو کو بھی اپنے سرمایہ کے بقدر نقصان برداشت کرنا ہوگا ، کاروبار ختم کرنے پر اگر واقعۃً 150000 روپے  بچے  ہیں  تو اس میں سے 56666 روپے  عمرو کو ملیں گے اور باقی زید کا حصہ ہوگا ، زید پر عمرو کو اس کا کل سرمایہ یعنی 17 لاکھ روپے دینا لازم نہیں ہے۔عمرو کا یہ کہنا کہ میں صرف نفع میں شریک ہوں نقصان میں نہیں شرعاً غیر معتبر ہے،ہاں عمرو اگر کاروباری تفصیلات کے بارے میں تسلی کرنا چاہتا ہے تو تفصیلات دے کر عمرو کو مطمئن کرنا زید کی ذمہ داری ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

لو كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه... والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما

(كتاب الشركة،الباب الثالث في شركة العنان،الفصل الثاني في شرط الربح والوضيعة وهلاك المال2/ 320، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100364

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں