ہم نے ایک کاروبار شروع کیا، دو بندوں پر مشتمل تھا، ایک بندے نے زیادہ پیسے اور دوسرے نے کم لگائے، اب منافع کیسے تقسیم ہو گا؟
اگر شرکت کے کاروبار کی ابتدا میں نفع کی شرح متعین نہ کی جائے تو وہ شرکت فاسد ہوتی ہے اور شرکتِ فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ ہر شریک کا حصہ اس کے سرمایہ کے اعتبار سے ہو گا، جس شریک کا سرمایہ زیادہ ہو گا اس کا منافع اس کے سرمایہ کی شرح کے اعتبار سے ہو گا اور جس شریک کا سرمایہ کم ہے اس کا منافع اس کے سرمایہ کی شرح کے اعتبار سے ہو گا۔
اگر معاملہ جاری رکھنا ہے تو دوبارہ شرکت کا عقد کرلیجیے اور بوقتِ عقد نفع کی شرح باہم رضامندی سے طے کرلیجیے، مثلاً ایک فریق زیادہ کام کرتا ہو لیکن اس کا سرمایہ کم ہو، جب کہ دوسرے کا سرمایہ زیادہ ہو لیکن اس کی محنت کم ہو، اور نفع برابر برابر ہو۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 62):
إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضل.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 326):
(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال، ولا عبرة بشرط الفضل).
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144108201661
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن