بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت میں کسی شریک کا نفع متعین رقم کی صورت میں لینے کا حکم


سوال

ہمارے ہاں کاروبار کا ایک طریقہ کا رواج چل پڑا ہے، جس میں دو بندے مثلاً 50، 50 ہزار روپے ملاکر کوئی کام شروع کردیتے ہیں، اور نفع بھی پچاس، پچاس فیصد کے اعتبار سے تقسیم کرتے ہیں، اس دوران یہ دونوں وہ کام براہ راست سرانجام بھی دیتے ہیں، پھر کوئی ایک شریک عمل چھوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے ہر صورت میں  سالانہ یا ماہانہ اتنی متعین رقم دے دیا کریں، اگرچہ نقصان ہی کیوں نہ ہوجائے، اور بالفرض سال، دو سال بعد کاروبار کی مالیت بڑھ جائے تو وہ آپ زائد مالیت کے مالک آپ ہی ہوں گے، میں اپنے اسی پچاس ہزار مالیت کا مالک ہوں گا، اور مجھے میری متعین کردہ رقم دیتے رہنا، لیکن اگر نقصان ہوگیا تو مجھے میرے پچاس ہزار روپے لوٹانے ہوں گے۔

پوچھنا یہ ہے کہ کاروبار کی مذکورہ صورت جائز ہے کہ نہیں؟ اگر نہیں تو جائز طریقہ کار بتائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں کاروبار کا مذکورہ طریقہ کار تو اس حد تک ٹھیک ہے کہ  جب تک فریقین  کام سرانجام دیتے رہیں تو  نفع بھی اپنے سرمایہ(پچاس، پچاس فیصد) کے اعتبار سے تقسیم کرتے  رہیں، لیکن جب ان دونوں میں سے کوئی ایک شریک عمل چھوڑ دیتا ہے تو اس کے بعد کا طریقہ کار شرعاً درست نہیں ہے، کیوں کہ اس صورت میں وہ شریک جو عمل چھوڑ دیتا ہے اپنا نفع متعین رقم کے لحاظ سے لیتا ہے جوکہ شرعاً درست نہیں ہے، اسی طرح وہ شریک  کاروبار میں نقصان ہونے کی صورت میں نقصان میں شریک نہیں ہو رہا بلکہ اپنے سرمایے کا یقینی تحفظ چاہتا ہے، یہ بھی شرعاً درست نہیں ہے، کیوں کہ شرکت میں فریقین اپنے اپنے سرمایہ کے بقدر نقصان برداشت کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، اور مذکورہ صورت میں شریکِ غیر عامل نقصان برداشت کرنے سے دستبردار ہو رہا ہے۔

کاروبار کی جائز صورت یہ ہے کہ جو شریک عمل چھوڑ دیتا ہے وہ گزشتہ معاہدہ ختم کرکے نئے سرے سے معاہدہ کرے اوراپنا نفع فیصد یا حصص کے حساب سے طے کرے، بھلے کم حصے یا کم فیصد لے لے، اور اگر بالفرض کاروبار کی مالیت بڑھ جائے تو ہر شریک اپنے نفع کی طے شدہ فیصد یا حصوں کے اعتبار سے کاروبار کی مالیت کا بھی مالک ہوگا، اور اگر کاروبار میں نقصان ہوجائے تو  ہر شریک اپنے اپنے سرمایہ کے بقدر نقصان برداشت کرے گا، لہٰذا فریقین کو  چاہیے کہ اپنا کاروبار مذکورہ طریقہ کار کے مطابق کردیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا عرف هذا فنقول: إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويًا أو متفاضلًا، فلا شكّ أنه يجوز و يكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما و الوضيعة على قدر المالين متساويًا و متفاضلًا؛ لأنّ الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال."

(كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، 6/62 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102220

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں