میں پراپرٹی کا کاروبار کرتا ہوں کبھی شراکت داری بھی ہوتی ہے، مثال کے طور پر ایک کروڑ کا سودا کیا، آدھی قیمت فورًا دینی ہے اور آدھی قیمت 6ماہ بعد دینی ہے، اب پاٹنر سے پچاس لاکھ لے کر اس کو دے دیتا ہوں اور اپنے حصے کے پچاس لاکھ وہی زمین فروخت کرکے دیتا ہوں اور نفع میں دونوں برابر ہیں کیا یہ صورت جائز ہے؟
واضح رہے کہ شرکت کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں شریک کا مال (راس المال)شرکت کا معاہدہ کرتے وقت یا مبیع(جس چیز کو بیچا اور خریدا جاتاہے جیسے پراپرٹی وغیرہ) خریدتے وقت حاضر اور موجود ہو،صورت مسئولہ میں اگر سائل کے پاس سودے کے وقت یا زمین خریدتے وقت اپنی ذاتی رقم موجود نہ ہو،صرف شریک (پاٹنر ) کی رقم ہےاور شریک کی پوری رقم لے کر آدھی قیمت کے اعتبار سے آگے دے دیتا ہے تو شرعا یہ شرکت درست نہیں ہے ۔ اس صورت میں سائل کو اپنی محنت کے عوض اجرت مثل ملےگی اور نفع و نقصان پورا سرمایہ لگانے والے شخص کا ہوگا۔اجرت مثل سے مراد یہ ہے کہ اس جیسے کام کی عام طور پر جتنی اجرت دی جاتی ہے ،اتنی اجرت سائل کو ملے گی۔
المبسوط للسرخسي میں ہے:
"(وأما شركة العنان) فهو أن يشترك الرجلان برأس مال يحضره كل واحد منهما، ولا بد من ذلك، إما عند العقد، أو عند الشراء حتى أن الشركة لا تجوز برأس مال غائب، أو دين."
(كتاب الشركة: 11/ 152، ط: دار المعرفة، بيروت)
وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:
"(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال، ولا عبرة بشرط الفضل) فلو كل المال لأحدهما فللآخر أجر مثله كما لو دفع دابته لرجل ليؤجرها والأجر بينهما، فالشركة فاسدة والربح للمالك وللآخر أجر مثله، وكذلك السفينة والبيت.
(قوله: والربح إلخ) حاصله أن الشركة الفاسدة إما بدون مال أو به من الجانبين أو من أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجرا؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في قفيز الطحان والثالثة لرب المال وللآخر أجر مثله."
(كتاب الشركة,فصل في الشركة الفاسدة,رد المحتار4/ 326ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144404101285
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن