بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضارب کامال مضاربت میں اپنی رقم شامل کرکےمنافع میں سےدوحصےخودرکھنا


سوال

 ہمارے علاقے میں کاروبار کی مروجہ صورت یہ ہے کہ ایک آدمی کچھ رقم اپنی طرف سے اور کچھ رقم مختلف لوگوں سے مضاربت کے نام پر لے کر ادھار پر کاروبار کرتا ہے اور سال کے بعد وصولی کرکے نفع میں سے دو حصے خود لیتاہے اور تیسرا حصہ اصحاب اموال کے سرمایے کے حساب سے ان کو دیتا ہے. آیا یہ شراکت ہے یا مضاربت؟ اگر شراکت ہے تو شراکت کی کونسی قسم ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں  کاروبار کی یہ صورت کہ جس میں ایک آدمی کچھ رقم اپنی طرف سے اور کچھ رقم مختلف لوگوں سے مضاربت کے نام پر لے کر کاروبار کرتاہو، یہ مضاربت ہے شرکت نہیں ہے، پھر اگر مثلاً بیس فیصد رقم اس میں  مضارب کی ہو اور باقی اسی فیصد رقم مختلف لوگوں کی ہو  تو مضارب کی رقم کے بقدر حاصل شدہ منافع اسی مضارب کاہوگا، اور مختلف لوگوں کی رقم کے بقدر  حاصل شدہ منافع  آپس میں طے شدہ شرح  فیصد کے حساب سے تقسیم ہوگا، اور اگر پہلے سے طے نہ ہو تو پھر منافع آدھا آدھا تقسیم  ہوگا،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر اس شخص نے لوگوں کے  ساتھ یہ طے کیا ہوکہ حاصل شدہ منافع میں سے دو حصے میرے اور ایک حصہ تمہاراہے تو  پہلے اپنی رقم کے بقدر منافع  الگ کر کےباقی ماندہ منافع میں سے دوحصے مضارب کا اور ایک حصہ مختلف لوگوں کاہو گا۔

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"المادة ( 1416 ) - ( إذا كان رب المال في المضاربة قد فوض إلى رأي المضارب أمور المضاربة بقوله له : اعمل برأيك يكون المضارب مأذونا بخلط مال المضاربة في كل حال....إذا كان رب المال في المضاربة المطلقة قد أذن للمضارب صراحة أو فوض إلى رأي المضارب أمور المضاربة بقوله له : اعمل برأيك، يكون المضارب مأذونا بخلط مال المضاربة بماله وبإعطائه أيضا مال المضاربة لآخر مضاربة في كل حال،"

(المادة:1416،ج:3،ص:472،ط:دارالکتب العلمیة)

اور بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) القسم الذي للمضارب أن يعمله إذا قيل له: اعمل برأيك وإن لم ينص عليه، فالمضاربة والشركة والخلط، فله أن يدفع مال المضاربة مضاربة إلى غيره، وأن يشارك غيره في مال المضاربة شركة عنان، وأن يخلط مال المضاربة بمال نفسه، إذا قال له رب المال: اعمل برأيك وليس له أن يعمل شيئا من ذلك، إذا لم يقل له ذلك."

(کتاب المضاربة،بيان حكم الضاربة،ج:5،ص:133،ط:وحيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101419

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں