بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1446ھ 05 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

شرکت کے معاملہ میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو سرمایہ لگانے کے لیے کچھ رقم بطور قرض دینا


سوال

 دو لوگوں نے مل کر  شرکت کے طور پر کاروبار شروع کیا، ایک کے پاس  دس لاکھ روپے تھے  اور دوسرے کے پاس  پانچ لاکھ روپے، پانچ لاکھ والے نے اپنی پوری رقم لگادی اور دس لاکھ والے نے کہا کہ میں ابھی دس لاکھ لگارہا ہوں لیکن اس میں سے ڈھائی لاکھ تمہاری طرف سے ہیں، سال بھر کے عرصہ میں واپس لوٹادینا، گویا کاروبار میں دونوں کی طرف سے سرمایہ ساڑھے سات، ساڑھے سات لاکھ روپے تھا،  اور  نفع کے بارے میں یہ طے پایا کہ وہ  آدھا آدھا تقسیم ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ اس طرح معاملہ کرنا درست ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ اگر سال بھر کے عرصہ میں دوسرا شریک ڈھائی لاکھ روپے نہیں لوٹاتا تو شرکت کا معاملہ برقرار رہے گا یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ شرکت کے معاملہ میں ایک شریک کا دوسرے کی طرف سے بطور قرض رقم لگانا اور دوسرے شریک کا اس کو قبول کرنا، درست ہے۔ نیز اس معاملہ میں جب کہ سرمایہ کے اعتبار سے نفع بھی دونوں کا آدھا آدھا رکھا گیا ہے، قرض کی وجہ سے مقروض کے نفع میں کمی نہیں آئے گی، لہذا معاملہ کے جواز میں کوئی شبہ نہیں۔ 

البتہ دوسرے شریک کو چاہیے کہ وہ حسبِ معاہدہ ڈھائی لاکھ قرضہ کو سال بھر میں ادا کردے، ادائیگی کی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نفع میں سے کچھ حصہ قرض میں ادا کرتا رہے تاکہ جلد رقم ادا ہوجائے، باقی  اگر سال بھر کے اندر مکمل رقم ادا نہیں ہوئی، تب بھی مذکورہ معاملہ فاسد نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب دفع ألفا على أن نصفه ‌قرض ونصفه مضاربة أو ‌شركة وفي مضاربة التتارخانية: ولو قال خذ هذه الألف على أن نصفها ‌قرض على أن تعمل بالنصف الآخر على أن يكون الربح لي جاز ولا يكره، فإن تصرف بالألف وربح كان بينهما على السواء والوضيعة عليهما؛ لأن نصف الألف صار ملكا للمضارب بالقرض، والنصف الآخر بضاعة في يده، وإن على أن نصفها ‌قرض ونصفها مضاربة بالنصف جاز ولم يذكر الكراهة هنا. 

قلت: ويظهر عدم الكراهة في الثاني بالأولى، والظاهر أن الشركة كالمفاوضة لو دفع ألفا نصفها ‌قرض على أن يعمل بالألف بالشركة بينهما والربح بقدر المالين مثلا، وأنه لا كراهة في ذلك؛ لأنه ليس قرضا جر نفعا (قوله: فطلب رب المال حصته) أي مما كان من الشركة منح، والمراد أنه طلب مال القرضة، فإن صبر إلى أن يصير مال الشركة ناضا: أي دراهم ودنانير يأخذ ما أقرضه من جنسه، وإن لم يصبر لنضه أخذ متاعا بقيمة الوقت، والظاهر أنه مقيد برضا شريكه، وإلا فله دفع قرضه من غير المتاع إن كان له غيره أو يأمره القاضي ببيعه، وإنما قلنا: إن المراد مال القرض؛ لأنه لو كان المراد قسمة حصته من مال الشركة فإنه يقوم بقيمته يوم اشترياه ويكون الربح بينهما على قدره كما نقله في البحر عن الينابيع."

(کتاب الشرکة، ‌‌فصل في الشركة الفاسدة، ج:4، ص:331، ط: دار الفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144605101983

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں