بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شراکت داری میں نفع کا حساب


سوال

میرے پاس دس لاکھ روپے ہیں، میں دوسرے شخص کے ساتھ کاروبار شروع کرنا چاہتاہوں، میں جس شخص سے کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں، اس شخص کا کاروبار ہے، میں اس میں انوسمنٹ کرنا چاہتا ہوں، برائے کرم مشورہ دیں  کس طرح شراکت کریں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر وہ تاجر آپ کی انویسمنٹ لینے پر راضی ہو جائے  اور اس کا کام حلال ہو تو آپ اس سے تحریری معاہدہ کرلیں، جس میں طے کرلیں کہ آپ کتنا سرمایہ لگا رہے ہیں، نفع ماہانہ یا سالانہ کتنے عرصہ بعد تقسیم ہوگا، نیز نفع کا  تناسب حاصل ہونے والے نفع کے فیصدی تناسب سے طے کرلیں، مثلاً اگر آپ اور اس کی انویسٹمنٹ برابر ہے تو حاصل ہونے والے نفع کا پچاس پچاس فیصد، یا چالیس ساٹھ، یا ستر تیس کا تناسب رکھ لیں۔ یوں طے نہ کریں کہ انویسٹمنٹ (مثلاً: دس لاکھ) کا تین فیصد (تیس ہزار) ہر ماہ ملے گا، اس صورت میں نفع متعین ہوجائے گا، اور معاملہ سود کے حکم میں ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 59):

"منهما وكيل صاحبه في التصرف بالشراء والبيع وتقبل الأعمال؛ لأن كل واحد منهما أذن لصاحبه بالشراء والبيع، وتقبل الأعمال مقتضى عقد الشركة والوكيل هو المتصرف عن إذن فيشترط فيها أهلية الوكالة لما علم في كتاب الوكالة.

(ومنها) : أن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالته توجب فساد العقد كما في البيع والإجارة.

(ومنها) : أن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں