بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت فی العروض کا حکم / چلتے کاروبار میں شریک ہونے کی جائز صورت


سوال

زید کافی عرصے سے سونے کاکام کرتا ہے،بکر نے اس کے پاس مشترکہ کاروبار کی نیت سے کچھ رقم جمع کرائی ہے،ترتیب اس طرح بنی کہ جو زید کے پاس اس دوکان میں تجارت کا موجود سازوسامان تھا،اس کی قیمت چار کروڑ لگائی گئی،اور بکر نے اس کے بعد دوکروڑ روپےمشترکہ کاروبار کی نیت سے جمع کرائے،اس طرح ٹوٹل چھ کروڑ سے کاروبار شروع ہوا،اس مشترکہ کاروبار میں مندرجہ ذیل کچھ معاملات طے پائے تھے۔

جس دوکان میں یہ سونے کا کاروبار قائم ہے،وہ زید کی ہے،لہٰذا ماہانہ نفع میں سے اس دوکان کا کرایہ نکالاجائےگا،اسی طرح جتنے ملازمین اس دوکان میں کام کرتے ہیں،بشمول زید کے،سب کی تنخواہیں اس نفع میں سے نکالی جائیں گی،اسی طرح دکان کے مشترکہ اخراجات مثلاً بجلی کے بل وغیرہ،کاریگروں کی مزدوری نفع سے نکالی جائےگی،اور ان سب چیزوں کے بعد بقیہ نفع کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دوحصے زید کے ہوں گے اور ایک حصہ بکرکا ہوگا۔

کاروبار مندرجہ ذیل شکلوں میں کیاجاتا ہے:

الف:باہر سے سونامنگواکر یہاں بیچاجاتا ہے۔

ب:یہاں ہی سونے کی تیار شدہ اشیاء خرید کریہیں بیچی جاتی ہیں۔

ج:لوگوں سے پراناسوناخریداجاتا ہے۔

1:شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں کہ مذکورہ مشترکہ کاروبار جائز ہے یانہیں؟

2:اخراجات اور نفع کی مندرجہ بالا ترتیب جائز ہے یانہیں؟

3:نیز فریقین کے درمیان تقسیم خرید پر ہوگی یانفع پر؟

جواب

1-3:بصورتِ مسئولہ مذکورہ معاملہ کئی خرابیوں کے پائے جانے کی وجہ سے درست نہیں ہے،جس کی تفصیل یہ ہے کہ:

شرکت صحیح ہونے کے لیے جانبین کے سرمایہ کانقدی کی صورت میں ہوناضروری ہے،لہٰذابصورتِ مسئولہ زید کی دوکان کا سازوسامان جس کی قیمت چار کروڑ مقرر کرکے شرکت کی گئی ہے،اگر اس سامان میں سونے،چاندی کے علاوہ دیگرچیزیں بھی شامل ہیں تو اس صورت میں سونے چاندی کے علاوہ اشیاء کو زیدکاسرمایہ قرار دینے کی وجہ سےمذکورہ شراکت داری ٗ شرکتِ فاسدہ،اور ناجائز ہے،اس کو فوراً ختم کرناضروری ہے،اس صورت میں اب تک جو نفع ہوچکا ہےوہ فریقین میں ان کے سرمایہ کے تناسب سے تقسیم کیاجائےگا،یعنی دوکان دار کو اس کے سرمایہ کے حساب سے66.66فیصد اور انویسٹر کو اس کے سرمایہ کے حساب سے33.33فیصد ملے گا،نیز نقصان بھی اسی حساب سےتقسیم کیاجائےگا۔

اسی طرح مذکورہ شرکت کے معاملے میں چوں کہ زید خود بھی شریک ہے؛ اس لیے  اس کےلیےنفع کی رقم میں سےاپنی تنخواہ  کاٹنابھی جائز نہیں ہے اورنہ ہی اپنی دوکان کاکرایہ کاٹناجائز ہے؛ کیوں کہ دوکان میں مشترک کام ہورہا ہے،اور شراکت داری کے معاملے میں شریک نہ تو اجیر بن سکتا ہے اور نہ شراکت کے لیے اپنی دوکان وغیرہ کرایہ پر دے سکتا ہے؛ اس لیے کہ جب وہ کاروبار میں شریک ہوگاتوخود ہی اپنی دوکان کا مالک بھی ہوگااور کرایہ دار بھی بنے گا جو کہ شرعاً درست نہیں،البتہ دیگر اخراجات یعنی کاریگروں کی مزدوری،شریک کے علاوہ دیگر ملازمین کی تنخواہ اور بجلی وغیرہ کے بل نفع میں سے پہلے منہاکرکےبقیہ نفع کو حسبِ ضابطہ تقسیم کرنادرست ہے۔

اس صورت میں  کاروبار کودرست کرنےکا طریقہ یہ ہے کہ بکر ٗ زید کی دوکان کے کاروباری مال اور متعلقہ سامان کا مخصوص حصہ مخصوص رقم کے عوض خریدکراس کے سونے اور دوکان کے سامان وغیرہ میں شریک ہوجائےاور زید کو اپنے مال میں شریک کرلے،اس کے بعد دونوں شراکت کے معاملات طے کرلیں کہ اس کی خرید وفروخت میں جو بھی نفع ہوگاوہ مثلاً ایک تہائی بکر کا ہوگا اور دو تہائی زید کا ہوگا،اس طرح کرنے سےیہ معاملہ درست اورجائز ہوجائےگا۔

دوکان کا جس طرح کرایہ طے کرکے شراکت میں شامل کرناجائز نہیں،اسی طرح دوکان کو شراکت کے سرمایہ میں شامل کرکے دوکان کے عوض نفع کا فیصد  طے کرنابھی جائز نہیں ہے،البتہ چوں کہ شراکت میں سرمایہ کے حساب سے نفع کافیصد طے کرناضروری نہیں ہے،بلکہ کسی شریک کانفع زیادہ اور کسی کا کم طے کرنا بھی جائز ہے،لہٰذا جس شریک کی دوکان ہو یادوکان اور محنت دونوں ہو تو اس کا نفع باوجود سرمایہ کے دوتہائی ہونے کے ٗ مثلاً85٪ اوردوسرے کا15٪ طے کرنابھی جائز ہے،البتہ نقصان میں سرمایہ کے حساب سے شریک کرناضروری ہے۔ 

بدائع الصنائعمیں ہے:

"(ومنها) : أن يكون ‌الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت ‌الشركة فاسدة؛ لأن العقد يقتضي تحقق ‌الشركة في ‌الربح والتعيين يقطع ‌الشركة لجواز أن لا يحصل من ‌الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق ‌الشركة في ‌الربح ... (منها) أن يكون رأس المال من الأثمان المطلقة وهي التي لا تتعين بالتعيين في المفاوضات على كل حال، وهي الدراهم والدنانير، عنانا كانت الشركة أو مفاوضة عند عامة العلماء، فلا تصح الشركة في العروض ... وأما التبر فهل يصلح رأس مال الشركة؟ ذكر في كتاب الشركة وجعله كالعروض وفي كتاب الصرف جعله كالأثمان المطلقة؛ لأنه قال فيه: إذا اشترى به فهلك لا ينفسخ العقد، والأمر فيه موكول إلى تعامل الناس، فإن كانوا يتعاملون به فحكمه حكم الأثمان المطلقة، فتجوز الشركة بها وإن كانوا لا يتعاملون بها فحكمها حكم العروض، ولا تجوز فيها الشركة."

(ص:٥٩،ج:٦،کتاب الشركة،فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة،ط:دار الكتب العلمية)

فتح القديرمیں ہے:

"(وكل شركة ‌فاسدة ‌فالربح فيهما على قدر المال، ويبطل شرط التفاضل) لأن ‌الربح فيه تابع للمال فيتقدر بقدره، كما أن الريع تابع للبذر في الزراعة، والزيادة إنما تستحق بالتسمية، وقد فسدت فبقي الاستحقاق على قدر ‌رأس ‌المال.

(قوله وكل شركة ‌فاسدة ‌فالربح فيها على قدر ‌رأس ‌المال إلخ) كألف لأحدهما مع ألفين للآخر ‌فالربح بينهما أثلاثا، وإن كانا شرطا ‌الربح بينهما نصفين بطل ذلك الشرط، ولو كان لكل مثل ما للآخر وشرطا ‌الربح أثلاثا بطل شرط التفاضل وانقسم نصفين بينهما (لأن ‌الربح في) وجوده (تابع للمال) ، وإنما طاب على التفاضل بالتسمية في العقد، وقد بطلت ببطلان العقد فيبقى الاستحقاق على قدر ‌رأس ‌المال المولد له."

(ص:١٩٤،ج:٦،کتاب الشركة،فصل في الشركة الفاسدة،ط:دار الفكر،بيروت)

شرح الزيادات لقاضي خان  میں ہے:

"الواحد في المعاوضات المالية لا يصلح عاقدا من الجانبين، لأن حقوق العقد فيها ترجع إلى العاقد، فيصير الواحد مطالبا ومطالبا، ‌مستزيدا ‌مستنقصا، وذلك محال، إلا الأب إذا باع ملكه من ولده الصغير، واشترى مال الصغير لنفسه بما يتغابن الناس فيه، فإنه يجوز استحسانا."

(ص:٧٣٦،ج:٢،کتاب البیوع،‌‌باب بيع الوالد على ولده الصغير،ط:المجلس العلمی،باکستان)

حاشية ابن عابدينمیں ہے:

"(وصحت بعرض) هو المتاع غير النقدين ويحرك قاموس (إن باع كل منهما نصف عرضه بنصف عرض الآخر ثم عقداها) مفاوضة أو عنانا، وهذه حيلة لصحتها بالعروض وهذا إن تساويا قيمة، وإن تفاوتا باع صاحب الأقل بقدر ما تثبت به الشركة ابن كمال، فقوله بنصف عرض الآخر اتفاقي.

(قوله: إن باع كل منهما إلخ) ؛ لأنه بالبيع صار بينهما شركة ملك حتى لا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر ثم بالعقد بعده صارت شركة عقد فيجوز لكل منهما التصرف ... يجوز أن يبيع كل واحد منهما نصف ماله بنصف مال الآخر وإن تفاوتت قيمتهما حتى يصير المال بينهما نصفين وكذا العكس جائز، وهو ما إذا كانت قيمتهما متساوية فباعاه على التفاوت، بأن باع أحدهما ربع ماله بثلاثة أرباع مال الآخر، فعلم بذلك أن قوله باع نصف ماله إلخ وقع اتفاقا أو قصدا ليكون شاملا للمفاوضة والعنان؛ لأن المفاوضة شرطها التساوي بخلاف العنان."

(ص:٣١٠،ج:٤،کتاب الشركة،ط:ايج ايم سعيد)

المبسوط للسرخسيمیں ہے:

"ولو كان طعاما بين رجلين استأجر أحدهما صاحبه ليحمله أو يطحنه لم يجز ذلك عندنا ... (وحجتنا) الحديث المشهور في النهي عن قفيز الطحان، وقد بينا أن معنى النهي أنه لو جاز صار شريكا فذلك دليل على أن تقدم الشركة في المحل يمنع صحة الإجارة، وهذا؛ لأن العقد يلاقي العمل وهو عامل لنفسه من وجه وبين كونه عاملا لنفسه وبين كونه عاملا لغيره منافاة والأجير من يكون عاملا لغيره وفيما يكون عاملا لنفسه لا يصلح أن يكون أجيرا ."

(ص:٣٥،ج:١٦،کتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102293

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں