بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت ملک کی ایک صورت کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص 20ہزار روپے پر بکری خریدے اور پھر کسی دوست کو کہہ دے کہ اپ بھی میرے ساتھ اس بکری میں شریک ہوجاؤ،  یعنی 10ہزار روپے آپ دےدو، تو دوست نے کہا کہ پیسے تو ابھی میرے پاس نہیں ہے،  تو اس نے جواب میں  کہا کہ :  کوئی بات نہیں ، جب آپ کے پاس پیسے آجائیں  تو دے دینا،  اور آپ اس بکری کو پالو،  اور اس میں جو منافع آجائے وہ دونوں کے درمیان مشترک ہو گا،  اس کے  بعد  بکری نے بچہ جنا ،  اور پھر  ان دونوں کو 26ہزار میں  کسی دوسرے شخص  کو  فروخت کیا اور پیسے برا بر برابر آپس میں بانٹ دیے ، اور پھر انہی پیسوں میں سے اس نے 10ہزار قرضہ  واپس کیا،  تو کیا ایسا معاملہ شرعا جائز ہے یا نہیں؟ دلیل کے ساتھ جواب دیں۔

جواب

مذکورہ معاملہ شرعاً درست ہے، کیوں کہ  جب دوسرے شخص نے بکری کا آدھا حصہ خریدنے کی پیشکش قبول کر لی، تو یہ بیع منعقد ہو گئی اور اس کے ذمہ اس آدھے حصہ کی قیمت ادا کرنا   لازم ہوگئی ، اور بکری دونوں کے درمیان آدھی آدھی مشترک ہو گئی، جب اس بکری کو   ایک شریک نے دوسرے شریک کی اجازت سے آگے بیچ دیا تو حاصل ہونے والی رقم میں دونوں آدھے آدھے شریک تھے، پھر اس دوسرے شخص نے اپنے حصہ کی رقم سے اپنے اس قرضہ کو ادا کر دیا ، اور جو رقم بقیہ بچ گئی وہ اس کی ملکیت ہوگی ۔

"الفتاوى الهندية"  میں ہے:

"وإذا ‌اشترى رجل شيئا، فقال له رجل آخر: أشركني فيه فأشركه فهذا بمنزلة البيع، فإن كان قبل قبض الذي ‌اشترى لم يصح، ولو أشركه بعد القبض ولم يسلمه إليه حتى هلك لم يلزمه ثمن، ويعلم أنه لا بد من قبول الذي أشركه؛ لأن لفظ " أشركتك " صار إيجابا للبيع، هكذا في فتح القدير."

(الباب الأول في بيان أنواع الشركة وأركانها وشرائطها وأحكامها، الفصل الثاني في الألفاظ التي تصح الشركة بها والتي لا تصح، ج:2، ص:304، ط: دار الفكر) 

"مجلة الأحكام العدلية" میں ہے:

"المادة (1342) لا يصح عقد الشركة على الأموال التي ليست معدودة من النقود كالعروض والعقار ، أي لا يجوز أن تكون هذه رأس مال للشركة ، ولكن إذا أراد اثنان اتخاذ أموالهما التي لم تكن من قبيل النقود رأس مال للشركة فبعد أن يحصل اشتراكهما ببيع كل واحد منهما نصف ماله للآخر فلهما عقد الشركة على مالهما المشترك هذا ، وكذلك لو خلط اثنان مالهما الذي هو من المثليات ومن نوع واحد كمقدارين من الحنطة مثلا ببعضه فحصلت شركة الملك فلهما أن يتخذا هذا المال المخلوط رأس مال للشركة ويعقدا عليه الشركة."

(الكتاب العاشر: الشركات، الباب السادس في بيان شركة العقد، ‌‌الفصل الثالث: في بيان الشروط الخاصة بشركة الأموال، ص:257، ط:نور محمد)

و فيه أيضاّ:

"(المادة 1073) تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح."

(الكتاب العاشر: الشركات، الباب الأول في بيان شركة الملك، ‌‌الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، ص:206، ط:نور محمد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101344

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں