بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت ملک کا حکم اور ترکہ کی تقسیم


سوال

میری بہن کو والد صاحب نے ایک گھر دیا تھا،بعد میں بہن نے وہ گھر بیچ کر دوسرا گھر65000 روپے میں لیا،جس میں اس کے شوہر نے 17500 روپے اور شوہر کے بھائی نے بھی 17500 روپے ملائے تھے،یعنی کل شوہر اور اس کے بھائی کے 35000 روپے تھے اور میری  بہن کے 30000 روپے تھے،اب میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے ،اس کے ورثاء میں شوہر،دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔میری بہن کے دیور  جو غیر شادی شدہ ہیں اور ساری زندگی اپنے بھائی کے ساتھ ہی رہے، وہ کہتے ہیں کہ اس گھر کے آدھے حصے کا میں مالک ہوں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ:

1:کیا ان کا یہ مطالبہ درست ہے؟

2:بہن کا ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا؟

جواب

1- صورت مسؤلہ میں سائل کی مرحومہ بہن کے دیورکایہ مطالبہ کرناکہ" میں آدھے گھر کامالک ہوں "شرعاًدرست نہیں ،بلکہ  سائل کی مرحومہ بہن کے دیور اورشوہر کامذکورہ گھر میں اپنی رقم کےتناسب سے حصہ ہے۔یعنی کل مکان یااس کی موجودہ مالیت کا46.153 فی صد حصہ  کی مالک سائل کی بہن اور26.923 فی صد حصہ  کامالک سائل کا بہنوئی اور  26.923 فیصد کامالک  اس کا بھائی  بھی ہوگا۔ 

2- سائل کی  مرحومہ بہن کاترکہ 46.153 فیصد یا اس کے علاوہ جو بھی  ہو ،اسے  مندرجہ ذیل طریقہ سے تقسیم کیاجائے گا ،سب سے پہلے مرحومہ کے حقوق متقدمہ یعنی  اگر ان پر قرضہ ہو اس کواداکرکے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو اس کوایک تہائی ترکہ سے اداکرکے باقی ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو  12 حصوں میں تقسیم کرکے مرحومہ  کے شوہر کوتین حصےاورہرایک بیٹےکو دو،دو حصے اور  ہرایک بیٹی کوایک،ایک حصہ ملےگا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

12

شوہربیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
32211111

یعنی سوروپے میں سے 25روپے مرحومہ کے شوہر کو، 16.66مرحومہ کے ہرایک بیٹے کواور8.33مرحومہ کی ہرایک بیٹی کو ملیں گے۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144306100195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں