دو بھائیوں نے دودھ کے کام میں شرکت کی ،ایک کی طرف سے 30 لاکھ تھے اور دوسرے کی طرف سے 70 لاکھ تھے اور نفع یہ طے کیا گیا تھا کہ 30 لاکھ والا ہر ماہ 30 ہزار روپے لیتا رہےگا اورنقصان کے بارے میں کچھ طے نہیں ہوا تھا،نیز اس کی صرف رقم تھی ،کام نہیں کرتا تھا ،کام دوسرا شریک کرتاتھا۔چنانچہ اس طرح وہ چار سال میں 48 ماہ کا نفع متعینہ طور پر 14 لاکھ 40 ہزار لے چکا،مگر اب جب کاروبار میں 56 لاکھ تقریبا نقصان ہوا تو وہ نقصان کے ازالہ میں شریک نہیں ہورہا اور وہ اپنے 30 لاکھ کا مطالبہ کررہے ہیں ،اب آیا یہ معاملہ سودی ہے ؟اگر سودی ہے تو کیا کیا جائے ؟
کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو متعین کردینا مثلاً یہ کہناکہ فلاں شریک کو ہر مہینے نفع کے طور پر اتنی رقم دی جائے، یا سرمائے کا اتنا فیصد دیا جائے یہ طریقہ درست نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں ایک شریک کے لئے ہر ماہ متعین 30 ہزار نفع طے کرنا شرعا درست نہیں تھا ،اس کی وجہ سے مذکورہ معاملہ شرعا فاسد تھا۔
شرکتِ فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ ہر ایک شریک اپنے سرمائے کے تناسب سے نفع نقصان کا حق دار ہوتا ہے،مذکورہ صورت میں ایک فریق کے 70 لاکھ اور دوسرے فریق کے 30 لاکھ روپے تھے ،چنانچہ اس طرح ایک کا سرمایہ 70 فیصد اور دوسرے کا 30 فیصد ہوا ،تو کاروبار میں جو نفع و نقصان ہوا ہے اس میں دونوں فریق مذکورہ تناسب کے اعتبار سے شریک ہوں گے ،ایک شریک کا نقصان میں شریک نہ ہونا اور اپنی مکمل رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔
مذکورہ صورت میں آئندہ کے لئے شراکت داری کا جائز طریقہ یہ ہے کہ نفع کی تعیین حاصل شدہ نفع کے فیصدی تناسب سے طے کی جائے ،مثلاً نفع دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا، یا کسی ایک فریق کے لیے نفع کا ساٹھ فیصد اور دوسرے کے لیے نفع کا چالیس فیصد یا دونوں کے سرمایہ کے بقدرنفع تقسیم کیاجائے، لیکن ایک شریک کام کرتاہے دوسرا شریک کام نہیں کرتا تو جو کام کرتاہے اس کے لیے نفع کا تناسب سرمائے کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا درست ہوگا، لیکن جو شریک کام نہیں کرتا اس کے لیے نفع کا تناسب اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ہوگا، جبکہ نقصان ہونے کی صورت میں ہر شریک کا نقصان اُس کے مال کے تناسب سے ہوگا، یعنی جتنے فیصد کسی کی سرمایہ کاری ہے ، اتنے ہی فیصد وہ نقصان میں حصہ دار ہوگا ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح."
( کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة،ج، 59،6، ص،ط،دارالکتب العلمیة)
وایضافیہ:
" والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا؛ لأن الوضیعة اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال."
کتاب الشرکة،فصل فی بیان شرائط جواز انواع الشرکة،ج،6،ص،62، ط، دار الکتب العلمیة )
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وكل شركة فاسدة فالربح فيها على قدر رأس المال كألف لأحدهما مع ألفين فالربح بينهما أثلاثا، وإن كانا شرطا الربح بينهما نصفين بطل ذلك الشرط."
(کتاب الشرکۃ،باب الشرکۃ الفاسدۃ،2/ 335،ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100318
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن