بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکتِ عقد کا طریقہ کار اور اس کے متعلق احکامات


سوال

بنوں میں میرا  دوائی کا ایک ادارہ ہے ،جو دکان داروں کو دوائی سپلائی کرتا ہے، اس کے کاروبار کے طریقہ کار کے متعلق شرعی راہ نمائی فرمائیں، اس کاروربار میں ہمارے منجمد اثاثے ہیں،مثلاً گاڑیاں، آفس، فرنیچر اور کمپیوٹر وغیرہ، جس کی مالیت تقریباً چالیس لاکھ روپے بنتی ہے،اور باقی دوائی وغیرہ ہوتی ہے، مجھے کچھ لوگوں نے نفع و نقصان کی بنیاد پر پارٹنرشپ کے لیے رقم دی ہے، جس کی شرائط اور طریقہ کار درج ذیل ہے۔

1۔ اس کاروبار کا حساب چھ ماہ بعد ہوا کرے گا۔

2۔فریقِ اول(ادارہ) کا حصہ40 فیصد اور فریقِ دوئم(رقم دینے والا شریک)  کا حصہ60 فیصد نفع و نقصان میں ہوگا۔

3۔فریقِ دوئم (رقم دینے والا) ماہانہ خرچے کے لیے باہمی رضامندی سے رقم لے سکتا ہے، اور یہ کل رقم  چھ ماہ بعد کاروبار کے حساب وکتاب کے وقت اس کے نفع سے کاٹی جائے گی۔

4۔اگر کوئی فریق شرکت ختم کرکے اپنی رقم واپس لینا چاہتا ہو تو 45 دن پہلے دوسرے فریق کو  آگاہ کرنا ضروری ہوگا،اس صورت میں دوسرا فریق اسے اس کی رقم اسے  45 دنوں کے اندر واپس کرنے کا پابند ہوگا۔

نفع و نقصان کی تقسیم کا طریقہ کار اور شق نمبر2  کی تفصیل:

اس کاروبار میں مثلاً میرے ایک کروڑ روپے ہیں، جس میں سے چالیس لاکھ منجمد اثاثوں کی مالیت ہے، اور باقی 60 لاکھ میرے کاروبار میں براہ راست لگے ہوئے ہیں، جب کہ فریقِ دوئم کے 25 لاکھ روپے ہیں، تو میں اپنے چالیس لاکھ روپے جوکہ منجمد اثاثوں کی صورت میں ہے اس کو شمار نہیں کرتا، بلکہ کل نفع کو 85حصوں  پر تقسیم کرکے ٍٍنفع کے 60 حصے   خود رکھ لیتا ہوں،کیوں کہ میرا سرمایہ جو براہ راست کاروبار میں لگا ہوتا ہے وہ ساٹھ لاکھ ہے،اور نفع کے باقی  25  حصے جوکہ فریقِ دوئم کا بنتا ہے(اس کا سرمایہ 25 لاکھ روپے ہونے کی وجہ سے) اس کو 100 پر تقسیم کرکے اس میں سے بھی 40فیصد نفع خود لیتا ہوں ،جوکہ میری محنت مزدوری کا  بدلہ ہوتا ہے۔

تمام سٹاف کی تنخواہ، آفس کا کرایہ اور دیگر اخراجات نکالنے کے بعد جو رقم بچتی ہے وہ ہمارا کل نفع ہوتا ہے۔

5۔نیز  میں اپنے پارٹنر کو پابند کرتا ہوں کہ اگر شرکت کرنی ہے تو مجھ سے  کاروبار میں کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کرو گے، کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ  میں ٹھیک طریقے سے حساب کرتا ہوں۔

کیا کاروبار کا مذکورہ طریقہ کار درست ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں  فریقین کا یہ معاہدہ کرنا کہ کاروبار کا حساب و کتاب چھ ماہ بعد ہوا کرے گا اگر اس  پر دونوں راضی ہوجائیں تو مذکورہ شرط لگانا شرعاً درست ہے۔

2۔سوال میں "نفع و نقصان کے طریقہ کار" کے عنوان سے شق نمبر 2 میں بیان کردہ شرط کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے کہ فریقِ اول نفع کے 60حصے لینے کے بعد فریقِ دوئم کے نفع کے 25 حصوں میں سے بھی 40 فیصد نفع اپنی محنت، مزدوری کے بدلے میں لے گا، تو اس صورت میں سائل کا محنت مزدوری کی وجہ سے فریقِ دوئم کے حصوں میں سے اپنے لیے کسی قسم کا نفع  لینا شرعاً درست نہیں ہے، اگر سائل کا سرمایہ زیادہ ہے اور وہ محنت اور کام مزدوری بھی کرتا ہے تو زیادہ نفع لینے کا طریقہ کار یہ ہے کہ معاہدہ کرتے ہوئے پہلے سے اپنے لیے نفع کے زیادہ حصے مقرر کرے، مثلاً یہ معاہدہ کرے کہ کل نفع کو 100 پر تقسیم کرکے اس میں سے 70 یا 80 فیصد نفع میرا ہوگا، اور باقی فریقِ دوئم کا، تو ایسی صورت میں سائل کا اپنے سرمایے اور محنت کی وجہ سے پہلے سے طے شدہ معاہدے کے تحت زیادہ نفع لینا درست ہوگا۔

اسی طرح   شرکت میں اگر نقصان ہوجائے تو ہر فریق  کاروبار میں اپنے لگائے گئے سرمایہ کے تناسب سے ہی  نقصان برداشت کرے گا۔نقصان کو نفع کے تناسب سے لاگوکرنادرست نہیں ہے۔

3۔مذکورہ صورت میں فریقِ دوئم کو  ماہانہ خرچے کے لیے  جو رقم دی جا رہی ہے وہ چوں کہ کاروبار کے حساب و کتاب کے وقت اس کےنفع سے کاٹی جائے گی، اس وجہ سے اس رقم کی حیثیت قرض کی ہے، اور اگر فریقین کی  باہمی رضامندی سے یہ شرط طے کی گئی ہو تو ایسا کرنا شرعاً درست ہے۔
4۔معاہدہ کرتے وقت فریقین اگر مذکورہ شرط  پر راضی تھے تو یہ ایسی شرط لگانا بھی شرعاًدرست ہے ،اور فریقین کو اس کی پاسداری کرنی ہوگی۔

5۔معاہدہ کرتے وقت اگر مذکورہ شرط پر فریقِ دوئم راضی ہوگیا ہو تو چھ ماہ تک وہ حساب و کتاب نہیں لے گا، اور ایسی شرط لگانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، البتہ شرکت کا معاہدہ ختم کرتے وقت یا جب بھی فریقِ دوئم کو اگر کسی وجہ سے کوئی شک و شبہ ہوا، اور اس کی وجہ سے اس نے حساب مانگا تو فریقِ اول(سائل) اسے کاروبار کا مکمل حساب و کتاب دینے کا پابند ہوگا۔

الدر مع الرد میں ہے:

"(و) لذا (تصح) عاما وخاصا ومطلقا ومؤقتا و (مع التفاضل في المال دون الربح وعكسه، وببعض المال دون بعض، وبخلاف الجنس كدنانير) من أحدهما (ودراهم من الآخر، و) بخلاف الوصف كبيض وسود وإن تفاوتت قيمتهما والربح على ما شرطا."

(کتاب الشرکۃ، مطلب فی توقیت الشرکۃ،ج4،ص 311 تا 313،ط: سعید)

وفیہ ایضًا:

"مطلب فيما لو ادعى على شريكه خيانة مبهمة قلت: بقي ما لو ادعى على شريكه خيانة مبهمة، ففي قضاء الأشباه: لايحلف. ونقل الحموي عن قارئ الهداية أنه يحلف وإن لم يبين مقدارا لكن إذا نكل عن اليمين لزمه أن يبين مقدار ما نكل فيه.

ثم قال: وأنت خبير بأن قارئ الهداية لم يستند إلى نقل، فلايعارض ما نقله في الأشباه عن الخانية (قوله: ومثله المضارب والوصي والمتولي) سيذكر الشارح في الوقف عن القنية أن المتولي لا تلزمه المحاسبة في كل عام ويكتفي القاضي منه بالإجمال لو معروفا بالأمانة ولو متهما يجبره على التعيين شيئا فشيئا، ولا يحبسه بل يهدده؛ ولو اتهمه يحلفه. "

(كتاب الشرکۃ، مطلب فیما یبطل الشركۃ ، فروع فی الشركۃ : 4/321 ، ط : سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو استأجره ليحمل له نصف هذا الطعام بنصفه الآخر لا أجر له أصلًا؛ لصيرورته شريكًا ... (ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له)؛ لأنه لايعمل شيئًا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلايستحق الأجر (كراهن استأجر الرهن من المرتهن)؛ فإنه لا أجر له لنفعه بملكه ... (قوله: فلا أجر له) أي لا المسمى ولا أجر المثل، زيلعي؛ لأن الأجر يجب في الفاسدة إذا كان له نظير من الإجارة الجائزة، وهذه لا نظير لها، إتقاني، وظاهر كلام قاضي خان في الجامع أن العقد باطل؛ لأنه قال: لاينعقد العقد".  

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:۶ ؍ ۵۷ ،۵۸ ،۶۰ ، ط:سعید )

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه ) وهو التفاضل في المال والتساوي في الربح  وقال زفر والشافعي: لايجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلى ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثاً فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان؛ إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل، ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان؛ فيستحق بقدر الملك في الأصل.

ولنا قوله عليه السلام: الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين. ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة، وقد يكون أحدهما أحذق وأهدى أو أكثر عملاً فلايرضى بالمساواة؛ فمست الحاجة إلى التفاضل. قيد بالشركة في الربح؛ لأن اشتراط الربح كله لأحدهما غير صحيح؛ لأنه يخرج العقد به من الشركة، ومن المضاربة أيضاً إلى قرض باشتراطه للعامل، أو إلى بضاعة باشتراطه لرب المال، وهذا العقد يشبه المضاربة من حيث أنه يعمل في مال الشريك ويشبه الشركة اسماً وعملاً فإنهما يعملان معاً، فعملنا بشبه المضاربة وقلنا: يصح اشتراط الربح من غير ضمان وبشبه الشركة حتى لاتبطل باشتراط العمل عليهما. وقد أطلق المصنف تبعاً للهداية جواز التفاضل في الربح مع التساوي في المال، وقيده في التبيين وفتح القدير بأن يشترطا الأكثر للعامل منهما أو لأكثرهما عملاً". (5/188)

بدائع الصنائع ميں هے:

"وروي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «‌المسلمون ‌عند ‌شروطهم» فظاهره يقتضي لزوم الوفاء بكل شرط إلا ما خص بدليل؛ لأنه يقتضي أن يكون كل مسلم عند شرطه."

(كتاب البيوع، فصل في حكم البيع، ج5،ص259،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا؛ لأن الوضیعة اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال."

(كتاب الشركة،ج6،ص62،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں