بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو القعدة 1446ھ 25 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

شراکت میں نقصان کی تقسیم کا شرعی معیار ؟


سوال

میری کمپنی نے افغانستان کی ایک کمپنی کے ساتھ زنک اور (Zinc Ore) کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے۔ معاہدے کے مطابق دونوں کمپنیاں مشترکہ طور پر زنک اور خریدیں گی، سرمایہ برابر لگائیں گی، اور عملی کام بھی دونوں کی جانب سے کیا جائے گا، نفع اور نقصان کی تقسیم 40:60 کے تناسب سے طے پائی ہے، یعنی ایک کمپنی کو 40 فیصد اور دوسری کو 60 فیصد نفع یا نقصان حاصل ہوگا(یعنی نقصان کی صورت میں ایک کمپنی 60فیصدنقصان اداکرے گی اوردوسری کمپنی 40فیصدنقصان اداکرے گی )۔ مزید یہ کہ معاہدے میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ سامان کی منتقلی (ٹرانسپورٹیشن) پر آنے والے اخراجات نفع کی تقسیم سے قبل منہا کیے جائیں گے۔شرعی لحاظ سے کیا یہ معاہدہ درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مذکورہ معاہدے کی اکثر شرائط شرعاً درست ہیں۔البتہ اس میں جو یہ شرط رکھی گئی ہے کہ نقصان 60/40 کے تناسب سے تقسیم ہوگا، یہ شرط شرعی اصول کے خلاف ہے،شرعی اصول  یہ ہے کہ شراکت میں نفع کی تقسیم باہمی رضامندی سے کسی بھی تناسب پر ہو سکتی ہے، لیکن نقصان کی تقسیم ہمیشہ سرمایہ کے تناسب سے ہی ہوگی،لہٰذا اگر دونوں شریک برابر سرمایہ لگائیں تو نقصان بھی برابر نصف نصف تقسیم ہوگا، اور اگر سرمایہ مختلف ہو تو ہر شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا،البتہ ایسی  شرط لگانے سےعقد فاسد نہیں ہوتا، بلکہ عقدجائز ہوگا، اورشرط باطل  ہوجائے گی  ۔

فتاوی عالگیریہ میں ہے: 

"لو كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله لم يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة ولكل واحد منهما ربح ماله، كذا في السراجية. ولو شرطا العمل عليهما جميعا صحت الشركة، وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج...اشتركا فجاء أحدهما بألف والآخر بألفين على أن الربح والوضيعة نصفان فالعقد جائز والشرط في حق الوضيعة باطل، فإن عملا وربحا فالربح على ما شرطا، وإن خسرا فالخسران على قدر رأس مالهما، كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الشرکة،الباب الثالث،الفصل الثانی،ج:2،ص:320،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

 فتاوی شامی میں ہے:

"(وحكمها الشركة في الربح،).مطلب: اشتراط الربح متفاوتا صحيح، بخلاف اشتراط الخسران:

تنبيه ويندب الإشهاد عليها،...ثم يقول: فما كان من ربح فهو بينهما على قدر رءوس أموالهما، وما كان من وضيعة أو تبعة فكذلك، ولا خلاف أن اشتراط الوضيعة بخلاف قدر رأس المال باطل واشتراط الربح متفاوتا عندنا صحيح فيما سيذكر، فإن اشترطا التفاوت فيه كتباه كذلك، ويكتب التاريخ كي لا يدعي أحدهما لنفسه حقا فيما اشتراه الآخر قبل التاريخ فتح"

(کتاب   الشرکة،ج:4،ص:305،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610102253

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں