بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

شپنگ کمپنی کے پاس سیکورٹی ڈپازٹ رکھوانے کے عوض امپوٹر سے رقم لینا


سوال

 عرض یہ ہے کے کنٹینر ریلیز کراتے وقت شپنگ کمپنی کو سیکورٹی ڈپازٹ کے طور پر رقم جمع کروانی پڑتی ہے،  جب کنٹینر شپنگ کمپنی کو واپس مل جاتا ہے  تو اس کے بعد شپنگ کمپنی وہ رقم ہمیں واپس کر دیتی ہے ۔

اکثر کلیئرنگ ایجنٹس سیکورٹی ڈپازٹ کی رقم خود جمع کرا دیتے ہیں اور اپنی پارٹی یعنی امپورٹر سے اس رقم کے عوض 2 ہزار یا 3 ہزار اضافی وصول کرتے ہیں ، امپورٹر بھی خوش ہوتا ہے کہ اس کی رقم پچاس ہزار یا لاکھ روپے چند ہفتوں یا ایک ماہ کے لیے نہیں پھنستی ہے ، کیا اس طرح سیکورٹی ڈپوزٹ کی رقم پر اضافی رقم وصول کرنا جائز ہے ؟

یا پھر ایک یہ صورت ہے کہ ہم امپورٹر سے سیکورٹی ڈپازٹ کی بات نہ کریں اور امپورٹر سے اپنا کمیشن بڑھوا کر لے لیں یعنی  وہ دو تین ہزار کمیشن کی مد میں اضافہ کرے تو پھر یہ صحیح ہے یا نہیں؟  مہربانی فرما کر ان دونوں صورتوں میں شریعت کے مطابق ہماری راہ نمائی  فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  کلیئرنگ ایجنٹس  کا امپورٹر کے سامان کا کنٹینر شپنگ کمپنی سے لینے کے لیے ان کے پاس سیکورٹی ڈپازٹ کے طور پر رقم رکھواکر اس کے عوض  امپورٹر سے اضافی  رقم لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ  کلیئرنگ ایجنٹ  جب  امپورٹر کی طرف سے  شپنگ کمپنی کے پاس رقم ڈپازٹ کروائے گا تو یہ   امپورٹر کے ذمہ دَین (قرض) ہے،  اور  قرض کے عوض مشروط نفع لینا سود ہوتا ہے جو ناجائز اور  حرام  ہے۔

البتہ اگر امپورٹر اس مکمل کام کا ٹھیکہ    متعین رقم کے عوض  ”  کلیئرنگ ایجنٹ“ کو دے دے  کہ  کنٹینر کلئیر کراکے مال ڈیلیور کرنے تک تمام مراحل  تمہارے ذمہ ہیں  اور اس مکمل کام کی اتنی اجرت (جو اگر چہ معمول کی رقم سے کچھ زیادہ ہو) تمہیں ملے گی، اور یہ رقم طے شدہ ہو اور اس میں کمی زیادتی نہ ہو  تو ایسی صورت میں  کلیئرنگ ایجنٹ اپنے طور یا کسی سے بھی رقم لے کر  ڈپازٹ رکھوادے اور امپورٹر کا مکمل کام مثلاً کاغذی کاروائی اور قانونی تقاضے مکمل کرکے   امپورٹر کا سامان اس کو  دے دے اور اس کے عوض اپنی طے شدہ اجرت وصول کرلے تو    یہ معاملہ جائز ہوگا۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"فتعين أن يكون الواجب فيه رد المثل ..... (وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا»؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب، هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."

(بدائع الصنائع،كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض،395/7، دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."

(رد المحتار علي الدر المختار، ‌‌باب المرابحة والتولية، ‌‌فصل في القرض، 166/5، سعيد)

وفیہ أیضاً:

"(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرةأو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة رد أشباه

(قوله أو مدة) إلا فيما استثنى: قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل وذكر أصلا يستخرج منه كثير من المسائل فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي."

(کتاب الإجارة ،باب الإجارۃ الفاسدۃ، 6 /46 ،ط:  سعید)

وفیہ أیضاً:

"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]

قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(کتاب الإجارة ،باب الإجارۃ الفاسدۃ، 6 / 63، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102283

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں