بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیعوں کے ساتھ کھانا کھانا


سوال

میں شیعہ لوگوں کے ساتھ نوکری کرتا ہوں اور ان  کے ساتھ کھانا بھی کھاتا ہوں، کیا یہ جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   شیعہ اگر کفریہ عقائد نہیں رکھتاہو تو اس  کے ساتھ کھاناکھانا فی نفسہ جائز ہے، البتہ  اگر  ان کے ساتھ کھانے پینے کا معمول بنالینےسےعقائد  کے بگڑنے کا اندیشہ ہو  تو  ان کے ساتھ کھانا پینا درست نہیں ہوگا،اور جو شیعہ کفریہ عقیدہ رکھتا ہو تو اس کاذبیحہ حلال نہیں ہوگا ایسے لوگ اگر خود ذبح  کریں یاایسے لوگوں کے ذبیحہ کا گوشت پکاکر لائیں تو اس کھانےکو کھانا بھی حلال نہ ہوگا ؛  لہذا ایسے لوگوں کے  ساتھ  کھانے  سے احتیاط میں ہی عافیت ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌قال ‌محمد - ‌رحمه ‌الله ‌تعالى - ‌ويكره ‌الأكل ‌والشرب ‌في ‌أواني ‌المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما وهو نظير سؤر الدجاجة إذا علم أنه كان على منقارها نجاسة فإنه لا يجوز التوضؤ به والصلاة في سراويلهم نظير الأكل والشرب من أوانيهم إن علم أن سراويلهم نجسة لا تجوز الصلاة فيها وإن لم يعلم تكره الصلاة فيها ولو صلى يجوز ولا بأس بطعام اليهود والنصارى كله من الذبائح وغيرها ويستوي الجواب بين أن يكون اليهود والنصارى من أهل الحرب أو من غير أهل الحرب وكذا يستوي أن يكون اليهود والنصارى من بني إسرائيل أو من غيرهم كنصارى العرب ولا بأس بطعام المجوس كله إلا الذبيحة، فإن ذبيحتهم حرام ولم يذكر محمد - رحمه الله تعالى - الأكل مع المجوسي ومع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما الدوام عليه فيكره كذا في المحيط."

(كتاب الكراهية،الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم،ج:5،ص:346،ط:دارالفکر)

 الزواجر عن اقتراف الکبائر میں ہے:

"قال  مالك بن دینار:  أوحی الله إلی النبي من الأنبیاء  أن قل لقومك: لایدخلوا مداخل أعدائي، و لایلبسوا ملابس أعدائي، و لایرکبوا مراکب أعدائي، و لایطعموا مطاعم أعدائي، فیکونوا أعدائي، کما هم  أعدائي".

 (ابن حجر مکی ہیثمی  مقدمہ،ج:1،ص:  15، ط:  دارالمعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101608

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں