بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شاگرد کو بطورِ سزا رکوع یا سجدے میں بہت دیر تک رکھنے کا حکم


سوال

 بسااوقات بعض استاذ اپنے شاگردوں کو بطورِ سزا رکوع یا سجدے میں بہت دیر تک رکھ دیتے  ہیں، کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے، نیز کیا  اس طرح کے سجدے کے لیے وضو ضروری ہے ؟

جواب

استاد کا شاگرد کو سزا کے طور پر  بہت دیر تک رکوع یا سجدہ  کی حالت میں رکھنا درست ہے ، اور اس کے لیے وضو کی ضروری نہیں ہے ، جب  کہ سزا سے مقصد جسمانی طور پر سزا دینا ہو کوئی عبادت کرانا مقصود نہ ہو، تاہم وضو کروالینا مناسب ہے تاکہ بچوں کو اس بات کی بھی تربیت ہو کہ   سجدہ   کے لیے وضو ضروری ہے،اور اگر مقصد سجدہ کروانا ہے تو چوں کہ بغیر وضو کے سجدہ جائز ہی نہیں اس لیے پہلے وضو کروایا جائے اور پھر سجدہ یا نماز پڑھوائی جائے ، البتہ بہتر یہ ہے کہ دو یا چار رکعت نماز پڑھوائی جائے۔

         نیز مدرسہ میں بچوں کو سبق، سبقی، منزل یاد نہ ہونے پر یا مدرسہ کی چھٹی کرنے پر درج ذیل سزائیں دی جاسکتی ہے:

(1)ان کی  کچھ وقت کے لیے چھٹی بند کردی جائے، اس کا  بچوں پر  کافی اثر ہوتا ہے۔ (2) کھڑا کردیا جائے۔ (3) اٹھک بیٹھک (اٹھنا بیٹھنا) کرایا جائے۔  یہ آخری دو سزاؤں میں  جسمانی اور اخلاقی دونوں اصلاحیں ہوجاتی ہیں، یعنی ورزش بھی ہوجاتی  ہے، تنبیہ بھی ہوجاتی ہے، لیکن  اس میں بھی اس کی رعایت کی جائے کہ برداشت سے زیادہ نہ ہو۔

سنن ابی داؤد میں ہے :

" عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها، وهم أبناء عشر وفرقوا بينهم في المضاجع".

( کتاب الصلاة، باب متی یومر الغلام  بالصلاة ج: 1  ص: 185 ط: المطبعة الأنصارية)

فتاوی شامی میں ہے:

"لايجوز ضرب ولد الحر بأمر أبيه، أما المعلم فله ضربه لأن المأمور يضربه نيابة عن الأب لمصلحته، والمعلم يضربه بحكم الملك بتمليك أبيه لمصلحة التعليم، وقيده الطرسوسي بأن يكون بغير آلة جارحة، وبأن لايزيد على ثلاث ضربات ورده الناظم بأنه لا وجه له، ويحتاج إلى نقل وأقره الشارح قال الشرنبلالي: والنقل في كتاب الصلاة يضرب الصغير باليد لا بالخشبة، ولايزيد على ثلاث ضربات".

( کتاب الحظر والإباحة ، فصل في البیع  ج: 6  ص: 430 ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(وإن وجب ضرب ابن عشر عليها بيد لا بخشبة) لحديث: "مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر".

 (قوله: بيد) أي ولايجاوز الثلاث، وكذلك المعلم ليس له أن يجاوزها، "قال عليه الصلاة والسلام لمرداس المعلم: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك". اهـ إسماعيل عن أحكام الصغار للأستروشني، وظاهره أنه لايضرب بالعصا في غير الصلاة أيضاً.(قوله: لا بخشبة) أي عصا، ومقتضى قوله: بيد أن يراد بالخشبة ما هو الأعم منها ومن السوط أفاده ط.(قوله: لحديث إلخ) استدلال على الضرب المطلق، وأما كونه لا بخشبة فلأن الضرب بها ورد في جناية المكلف".

(کتاب الصلاة ج: 1 ص: 352 ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے :

"وأما شرائط الجواز فكل ما هو شرط جواز الصلاة من طهارة الحدث و هي الوضوء والغسل، و طهارة النجس و هي طهارة البدن والثوب، و مكان السجود و القيام و القعود فهو شرط جواز السجدة؛ لأنها جزء من أجزاء الصلاة فكانت معتبرةً بسجدات الصلاة."

(کتاب الصلاۃ ، فصل شرائط جواز السجدة ج: 1 ص: 186 ط: دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412100586

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں