بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیعہ لڑکے کا اپنےمذہب سے براءت کرنے کے بعد سنی لڑکی سے نکاح کا حکم


سوال

میں ایک شیعہ فقہ سے تعلق رکھتا ہوں اور میں ایک دیوبند فقہ کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں،  میں نے اس لڑکی کو اور خود بھی تہہ دل سے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ میرا کلمہ خالصتاً ’’لا إله إلاالله محمد رسول الله‘‘  ہے اور اس میں نہ کوئی کمی یا زیادتی کروں گا۔ مزید میں ماتم کو بھی صحیح نہیں مانتا اور نہ مجالس میں شریک ہوتا ہوں؛ کیوں کہ خود کو یا اپنے آپ سے دوسرے مسلمانوں کے لیے رکاوٹ بنا کر تکلیف دینا اچھا عمل نہیں ہے۔ اور صحابہ کرام کی اتنی ہی عزت کرتا ہوں جتنا میرا ایک دیوبندی  بھائی کرتا ہے۔ لہذا میری آپ سے درخواست ہے کہ میری اس سچ اور نیک کام میں راہ نمائی فرمائی جائے اور مجھے تحریری لکھ  کے دیا جائے؛ تاکہ میں اس نیک عمل کو پورا کر سکوں!

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ  میں نکاح کے جائز  ہونے کے لیے لڑکا اور لڑکی دونوں کا مسلمان ہوناضروری ہے۔ اگرکسی شیعہ کا عقیدہ یہ ہوکہ قرآنِ کریم میں تحریف (ردوبدل) ہوئی ہے، ان کے جو بارہ امام ہیں ان کےبارے میں اس بات کا قائل ہوکہ  امام گناہ سے معصوم ہے، اور ان کو حلال وحرام کا اختیارہے، یا جبرئیل امین سے وحی پہنچانے میں غلطی ہوئی ہے، یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان باندھتاہو تواس طرح کے عقائد رکھنے والا فرد مسلمان نہیں ہے، اور کسی سنی لڑکی کا اس سے نکاح جائزنہیں ہے۔

البتہ اگر شیعہ لڑکااپنے باطل کفریہ عقائد سے صدق دل سے توبہ کرکےمعتبر گواہوں کے سامنے اسلامی عقائد کے اعتراف کے ساتھ ساتھ شیعہ کے باطل عقائد سے مکمل براء ت کا اظہار کرے  اور اپنے عقیدہ کے مطابق تقیہ سے کام نہ لے اور صحیح اسلامی عقائد کا دل وجان سے اقرار کرلے تو اس سے نکاح جائز ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں اگر  سائل تمام باطل کفریہ عقائد  اور شیعہ مذہب سے صدق دل سے  توبہ  کررہاہے اور ان سے مکمل براءت کا اعتراف بھی کررہاہے تو سنی لڑکی سے نکاح کرنا درست ہے۔

فتاوی شامی میں ہے

"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل علياً أو يسب الصحابة ؛ فإنه مبتدع لا كافر، كما أوضحته في كتابي "تنبيه الولاة والحكام علی أحكام شاتم خير الأنام أو أحد الصحابة الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 46)ط :سعید)

فتاوی شامی میں ہے:
"أَقُولُ: نَعَمْ نَقَلَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ عَنْ الْخُلَاصَةِ أَنَّ الرَّافِضِيَّ إذَا كَانَ يَسُبُّ الشَّيْخَيْنِ وَيَلْعَنُهُمَا فَهُوَ كَافِرٌ، وَإِنْ كَانَ يُفَضِّلُ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا فَهُوَ مُبْتَدِعٌ.وَهَذَا لَا يَسْتَلْزِمُ عَدَمَ قَبُولِ التَّوْبَةِ". (حاشية ابن عابدين (4 / 237) ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها: إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمةً فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: ﴿وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوا﴾؛ ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه، وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل:﴿أُولٰئِكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ﴾؛ لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سبباً داعياً إلى الحرام فكان حراماً، والنص وإن ورد في المشركين لكن العلة، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة، أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة، فلا يجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لا يجوز إنكاحها الوثني والمجوسي؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى:﴿ وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا﴾، فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل، وهذا لايجوز". (بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع 270/2 ط:سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202939

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں