بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت میں پورا نفع ایک شریک کےلیے رکھنے کا حکم


سوال

میں نے چندسال قبل دوفلیٹ خریدنےکی مد میں اپنےبھائیوں سے33لاکھ روپےلیےتھےاور میں نے ان سےکہاتھاکہ جتنا نفع ہوگا وہ میں آپ کو دوں گا،(نقصان سےمتعلق کوئی بات نہیں ہوئی تھی)لیکن مجھے نفع کی بجائےنقصان ہوا اور اتنا نقصان ہواکہ میں ڈیڑھ کروڑ کامقروض ہوگیا،اس وقت میرےبھائیوں نےمجھےزکوٰۃ کی رقم دی تھی تاکہ میں اس سےاپنا قرضہ اتارسکوں،اور یہاں تک کہا کہ ہمارےان فلیٹوں کےپیسےاستعمال کرکےاپنا قرضہ اتاردو،اور ہماری جو مشترکہ ایک دکان ہے وہ بھی بیچ کر اپنےمسئلے حل کردو،لیکن اب کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنےپیسوں کا مطالبہ کیا اور یہ کہا کہ اب چونکہ ان فلیٹوں (جس کی خریداری میں ہم نےآپ کو پیسے دئیےتھے)کی قیمت ڈبل ہوگئی ہے،لہٰذا اس کے بدلےہماری اس مشترکہ دکان میں اپنا حصہ چھوڑکر دکان پوری کی پوری ہماری طرف کردو۔

اب پوچھنا یہ ہےکہ کیا میں اپنے بھائیوں کوان کی رقم نفع سمیت واپس کرنے کا پابند ہوں؟ حالانکہ ان فلیٹوں میں میرا نقصان ہوا تھااور اتنا نقصان ہواتھاکہ میں مقروض ہوگیا تھا،اب بھی مقروض اور مستحقِ زکوٰۃ ہوں؟

نوٹ:سائل نےاپنےبھائیوں سےمذکورہ33لاکھ روپےکاروبار میں لگانےکےلئےلیےتھے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نےمذکورہ پلاٹس خریدنے  کے لیے اپنےبھائیوں سےرقم لی اوران پلاٹس میں نفع ہونےکی صورت میں پورا نفع اپنےبھائیوں کےلیےرکھا تو  سائل ان (اپنےبھائیوں)کےلیےبلامعاوضہ کام کرنےوالااور متبرع(احسان کرنےوالا)بنا،ایسی صورت میں مذکورہ پلاٹس کانفع پوراکا پورا سائل کےبھائیوں کا ہوگا،البتہ صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کو مذکورہ پلاٹس میں نفع کی بجائےنقصان ہوا ہےتو وہ نقصان سائل اور اس کےبھائیوں پر اپنےاپنےسرمایہ کےبقدر لازم ہوگا،نقصان کی صورت میں سائل اپنےبھائیوں کو نفع دینےکا پابند نہیں ہے،لہٰذا سائل کےبھائیوں کا مذکورہ پلاٹس میں نقصان ہونےکےباوجود اپنےبھائی(سائل) سےپلاٹس کی قیمت زیادہ ہونےکی بناء پر مذکورہ مشترکہ دکان پوری کی پوری اپنی طرف کرنےکا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

"مجمع الأنھرفي شرح ملتقى الأبحر"میں ہے:

"(وإن شرط) ‌كل ‌الربح (لرب المال فمستبضع) حيث يكون عاملا لرب المال بلا بدل، وعمله لا يتقوم إلا بالتسمية فكأنه كان وكيلاً متبرعاً."

(کتاب المضاربة، 322/2، ط: دارإحياء التراث العربي)

"البحرالرائق" میں ہے:

"وحكمها أنه أمين بعد دفع المال إليه ووكيل عند العمل وشريك عند الربح وأجير عند الفساد فله أجر مثله والربح كله لرب المال . . .  ومستقرض عند اشتراط ‌كل ‌الربح له ومستبضع عند اشتراطه لرب المال فلا ربح له ولا أجر ولا ضمان عليه بالهلاك."

(كتاب المضاربة، 264/7، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100805

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں