بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکتِ فاسدہ کی ایک صورت


سوال

 زید اور عمرنے مل کر ایک ٹریکٹر خریدا کہ اس سے لوگوں کے ہل  وغیرہ  کا کام کریں گے،اور جو گندم وغیرہ ہمیں ملے گا،وہ تقسیم کریں گے،اس میں زید کا سرمایہ 80 ہزار اور عمر کا سرمایہ 350000 تھا،ٹریکٹر خریدنے کے بعد  جب پہلی مرتبہ ٹریکٹر خراب ہوا تو عمرنے زید سےنقصان کا مطالبہ کیا ،تو زید نے کہا  کہ میں اس شراکت میں آگے نہیں چل سکتا، مجھے ہر سال گندم دیتے رہنا، میں نقصان میں شریک نہیں ہوں گا، صرف نفع میں شریک ہوں گا۔

اس کے بعد سے اب اس  کام کو   20 سال گزر چکے ہیں، ڈرائیور صرف عمرتھا ،عمرنے 20 سال ٹریکٹر چلایا ،اس کے تین بیٹے اس کے ساتھ مسلسل اسی کام میں ہاتھ بٹاتے تھے،کام صرف ٹریکٹر چلانے تک محدود نہیں رہا بلکہ ذراعت سے متعلق دیگر خدمات بھی یہ لوگ فراہم کرنے لگے،تھریشر کی مشینیں خریدیں وغیرہ ، اس   کے لیے زید کے  بیٹوں نے کچھ جانور  اور بے شمار درخت فروخت کر کے اور زمین بھی مزارعت پر لی، اس سے جو نفع ہوا ، ان سب سے یہ مشینریاں خریدیں،الغرض عمر اور اس کے بیٹوں نے اس کام کو فروغ دینے اور بڑھانے کے لیے دن رات ایک کر دی ،جب کہ زید اور اس کے بیٹوں نے کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگا یا، ہر سال کبھی 25،کبھی 27 اور اکثر اوقات 22 من گندم ،سالانہ 3،4 من چاول سمیت، ان کے دروازے پر پہنچ جاتی تھی ، سبزیاں لکڑیاں اور پیاز اس کے علاوہ دیتے رہے ،نیز  17 ہزار روپے زید نے واپس بھی لے لیےتھے،(عمر کا یہ تعامل زید کے ساتھ قریبی رشتہ داری کی بناء پر تھا، ورنہ زید عرصہ پہلے شرکت ختم کر چکا تھا )۔

زید کا آٹھ سال قبل انتقال ہو ا،لیکن اس کے باوجود بھی عمر اور اس کے بیٹوں کی جانب سےدرج بالا ترتیب میں کوئی فرق نہیں آیا۔اب زید کی اولادکا مطالبہ ہےکہ  سب مشینوں میں وہ  بھی شریک ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا زید کی اولادصرف ٹریکٹر میں شریک ہے،یا باقی مشینوں میں بھی شریک ہے؟اور اب زید کے بیٹوں کو کتنا حصہ ملے گا،شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شرکت میں نفع کا تناسب طے کرناضروری ہے،اگر کسی عقدِ شرکت میں نفع کے تناسب کو طے نہ کیاجائےتو وہ شرکت فاسدہ تصور کی جاتی ہے،اور شرکتِ فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ اس کو فوراً ختم کرناضروری ہوتا ہے،اس دوران اگر کوئی نفع ہوا ہوتو وہ شریکین کے سرمایہ کے تناسب سے تقسیم کیاجاتا ہے اور اگر کوئی نقصان ہوا ہو تو وہ بھی شریکین کے سرمایہ کے تناسب سے تقسیم کیاجاتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں زید اور عمر  نے مل کر ٹریکٹر خریدا ،جس میں زید کی اسیّ ہزار اور عمر کی ساڑھے تین لاکھ روپے لگے تھے، اس حساب سے زید اس ٹریکٹر میں 18.60 فیصد کا شریک تھا،جب کہ عمر 81.46 فیصد کا شریک تھا ،ٹریکٹر خراب ہونے کی صورت میں زید نے نقصان کی ذمہ داری اُٹھانے سے انکار کر دیا اور اپنےآپ کو صرف منافع کی حد تک محدود رکھا تو یہ شرط فاسد تھے، جس سے شرکت کی عقد فاسد ہو گیا تھا ،اور شرکت کا عقد جب فاسد ہو جائیں تو اس سے حاصل نفع شرکاء میں سرمایہ کی تناسب سے تقسیم ہوتا ہے،ز ید چوں کہ  18.60 فیصدکا شریک تھا، اس لیے حاصل ہونے والے منافع میں اس کا حصہ 18.60 فیصد ہی بنتا ہے، اگر عمر نے رشتہ داری کی بناء پر اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے میں اسے  سالانہ منافع دیتا رہا ،اگر یہ منافع زید کی سرمایہ کی تناسب سے زائد تھا، تو زید اس کا مستحق نہیں تھا، یہ عمر کی طرف سے تبر ع اور احسان شمار ہوگا، اب زید کی اولاد کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہم تمام مشینوں میں شریک ہیں شرعاً درست نہیں ہے،البتہ وہ ٹریکٹر کی موجودہ قیمت میں اپنے سرمایہ  کے بقدر رقم کا حقدار ہے، شرکت ختم کر کے اس کی واپسی کا مطالبہ کر سکتے ہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي النهر: اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويا مالا وتفاوتا ربحا جاز عند علمائنا الثلاثة خلافا لزفر والربح بينهما على ما شرطا وإن عمل أحدهما فقط؛ وإن شرطاه على أحدهما، فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما ‌على ‌قدر رأس مالهما أبدا هذا حاصل ما في العناية اهـ ما في النهر."

(كتاب الشركة، مطلب في توقيت الشركة، ج:4، ج:312، ط: سعيد)

و فیہ ایضاً:

"(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال، ‌ولا ‌عبرة ‌بشرط ‌الفضل) فلو كل المال لأحدهما فللآخر أجر مثله كما لو دفع دابته لرجل ليؤجرها والأجر بينهما، فالشركة فاسدة والربح للمالك وللآخر أجر مثله، وكذلك السفينة والبيت، ولو لم يبع عليها البر فالربح لرب البر وللآخر أجر مثل الدابة، ولو لأحدهما بغل وللآخر بعير فالأجر بينهما على مثل أجر البغل والبعير نهر......(قوله: والربح إلخ) حاصله أن الشركة الفاسدة إما بدون مال أو به من الجانبين أو من أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجرا؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في ‌قفيز ‌الطحان والثالثة لرب المال وللآخر أجر مثله (قوله فالشركة فاسدة) ؛ لأنه في معنى بع منافع دابتي ليكون الأجر بيننا فيكون كله لصاحب الدابة؛ لأن العاقد عقد العقد على ملك صاحبه بأمره، وللعاقد أجرة مثله؛ لأنه لم يرض أن يعمل مجانا."

(كتاب الشركة، مطلب في توقيت الشركة، ج:4، ج:326، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكل ‌شركة فاسدة فالربح فيها على قدر رأس المال كألف لأحدهما مع ألفين فالربح بينهما أثلاثا، وإن كانا شرطا الربح بينهما نصفين بطل ذلك الشرط، ولو كان لكل مثل ما للآخر وشرطا الربح أثلاثا بطل شرط التفاضل وانقسم نصفين بينهما؛ لأن الربح في وجوده تابع للمال، كذا في فتح القدير."

(كتاب الشركة، الباب الخامس في الشركة الفاسدة، ج:2، ص:335، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144506100657

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں