بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شرعی مسافت اور قصر کا حکم


سوال

مجھے اپنی بیوی کے علاج کی غرض سے ہر ہفتے لاہور جانا ہوتا ہےجو کہ میرے گھر سے تقریبًا360کلومیٹر کی دوری پر ہے اور میں رات کو نکلتا ہوں اور لاہور سے چیک اپ کروانے کے بعد رات کو واپس آ جاتا ہوں توکیا میں راستے میں نما قصر کروں گا یا پوری پڑھنے کا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جوشخص اپنے شہر یا بستی سے باہر سفر کے ارادے سے نکلے اور   (اپنے شہر کی اختتامی حدود سے مطلوبہ شہر کی ابتدائی حدود تک) مسافتِ سفر  کم از کم  48میل (77٫24 یعنی تقریباً  سواستترکلومیٹر)  ہو تو ایسےشخص پراپنے شہرکی آبادی اور حدود سے نکلنے کے بعد  چا رکعت والی فرض نماز میں قصر کرنا لازم ہوجاتا ہے، اور جس جگہ سفر کا ارادہ ہو  اس شہر یا بستی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو تو وہاں بھی قصر نماز پڑھنا لازم ہوگا۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائل راستے میں قصر نماز پڑھے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا بد للمسافر من قصد مسافة مقدرة بثلاثة أيام حتى يترخص برخصة المسافرين وإلا لا يترخص أبداً ... ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوماً أو أكثر، كذا في الهداية".

(الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، ج: ۱، صفحه: ۱۳۹، ط: دار الفكر - بیروت)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"فإذا قصد مسيرة ثلاثة أيام قصر الصلاة حين تخلف عمران المصر؛ لأنه مادام في المصر فهو ناوي السفر لا مسافر، فإذا جاوز عمران المصر صار مسافراً؛ لاقتران النية بعمل السفر".

(کتاب الصلاۃ، باب صلاة المسافر، ج: ۱، صفحه: ۲۳۶، ط: دار المعرفة - بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يصير به المقيم مسافراً: فالذي يصير المقيم به مسافراً نية مدة السفر والخروج من عمران المصر فلا بد من اعتبار ثلاثة أشياء: ... والثالث: الخروج من عمران المصر فلايصير مسافراً بمجرد نية السفر ما لم يخرج من عمران المصر".

(كتاب الصلاة، فصل بيان ما يصير به المقيم مسافرا، ج: ۱، صفحه: ۹۳، ط:  دار الكتب العلمية)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے: 

"ولا يزال" المسافر الذي استحكم سفره بمضي ثلاثة أيام مسافراً "يقصر حتى يدخل مصره" يعني وطنه الأصلي "أو ينوي إقامته نصف شهر ببلد أو قرية" قدره ابن عباس وابن عمر رضي الله عنهم وإذا لم يستحكم سفره بأن أراد الرجوع لوطنه قبل مضي ثلاثة أيام يتم بمجرد الرجوع وإن لم يصل لوطنه لنقضه السفر؛ لأنه ترك بخلاف السفر لا يوجد بمجرد النية حتى يسير، لأنه فعل "وقصر إن نوى أقل منه" أي من نصف شهر "أو لم ينو" شيئاً "وبقي" على ذلك "سنين".

قوله: "في محل تصح إقامة فيه" شروط إتمام الصلاة ستة النية والمدة واستقلال الرأي واتحاد الموضع وصلاحيته وترك السير در قوله: "يقصر" جملة يقصر صفة مسافراً قوله: "يعني وطنه الأصلي" ومنتهى ذلك بالوصول إلى الربض، فإن الانتهاء كالابتداء والإطلاق دال على أن الدخول أعم من أن يكون للإقامة أولا، ولحاجة نسيها".

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ص: ۴۲۵، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں