ہمارے گاؤں میں تقریبا 100 سے زائد گھر ہیں، اور اس میں پرچون کی دکانیں بھی کافی ہیں، اور یہ کہ اس کے قریباً 3 سے 4 کلو میٹر دور شہر ہیں، جہاں پر ڈاکٹر وغیرہ ضرورت کی ہر چیز مل جاتی ہے ،تو ایسے گاؤں میں تقریبا 20 سے30 سالوں سے لوگ جمعہ اور عیدین کی نمازیں پڑھتے ہیں، تو کیا ایسا کرنا درست ہے، یعنی نماز ہوجائے گی؟
صورتِ مسئولہ میں جمعہ کی نماز جائز ہونےکے لیے اس جگہ کا مصر (شہر) ہونا، یا فنائے مصر کا ہونا، یا قریہ کبیرہ (بڑا گاوں اس بستی کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کے عرف میں بڑی بستی کہلاتی ہو، چنانچہ جس بستی کی مجموعی آبادی کم از کم دو ڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل ہو اور وہاں ضروریات زندگی میسر ہوں وہ عرف میں قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی کہلاتی ہے) کا ہونا ضروری ہے۔ جب کہ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق مذکورہ گاؤں سو گھر پر مشتمل ہے تو مطلوبہ مقدار میں آبادی نہ ہونے کی وجہ سے جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے، لیکن اگر اس گاؤں میں کافی عرصہ سے مثلاً بیس سے تیس سال سے جمعہ پڑھا جارہا ہو اور جمعہ بند کرنے کی صورت میں اگر فتنہ و فساد اور انتشار کاخوف ہو، تو ایسی صورت میں جمعہ کی نماز بدستور قائم کی جاسکتی ہے لہذا جمعہ کے دن جمعہ کی نماز ادا کریں اور گھروں میں خواتین ظہر کی نماز ادا کریں۔
کفایت المفتی میں ہے:
"اگر اس جگہ ایک سو برس سے جمعہ کی نماز ہوتی ہے تو اسے بند نہ کرنا چاہیے کہ اس کی بندش میں دوسرے فتن و فساد کا اندیشہ ہے، جو لوگ نہ پڑھیں ان پر اعتراض اور طعن نہ کرنا چاہیے، وہ اپنی ظہر کی نماز پڑھ لیا کریں اور جو جمعہ پڑھیں وہ جمعہ پڑھ لیا کریں"۔
(کتاب الصلاۃ، پانچواں باب، ج:3، ص:187، ط:دارالاشاعت)
فتح القدیر للکمال ابن الہمام میں ہے:
"لاتصح الجمعة إلا في مصر جامع ، أو في مصلى المصر ، و لاتجوز في القرى)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: { لا جمعة و لا تشريق و لا فطر و لا أضحى إلا في مصر جامع } و المصر الجامع : كل موضع له أمير و قاض ينفذ الأحكام و يقيم الحدود، و هذا عند أبي يوسف رحمه الله، و عنه أنهم إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم، و الأول اختيار الكرخي و هو الظاهر، و الثاني اختيار الثلجي، و الحكم غير مقصور على المصلى بل تجوز في جميع أفنية المصر؛ لأنها بمنزلته في حوائج أهله.."
(کتاب الصلوۃ، باب الجمعة، ج:3، ص:202، ط: دارالفکر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604100884
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن