بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شہر سے دو کلومیٹر فاصلہ پر واقع دیہات میں نمازِ جمعہ پڑھنے کا حکم


سوال

 ہمارے گاؤں منڈھار ضلع مانسہرہ میں جس کی آبادی تقریبا تین ہزار نفوس پر مشتمل ہے، اور بمطابق 2017 مردم شماری گھرانوں کی تعداد  429 کے لگ بھگ ہے، گاؤں میں تین چار دکانیں موجود ہیں نیز اس گاؤں منڈھار میں اسی کے ملحقہ بستیاں لنڈی منڈھار، جبی منڈھار، اپر منڈھار ہیں جنکی اپنی اپنی چھوٹی مساجد ہیں ، گاؤں منڈھار کے ساتھ دوسری بستیاں گہوٹر نامی گاؤں جس میں آبادی بھی کم ہے، وہاں پر نماز جمعہ کی ادائیگی ہوتی ہے اس کے علاوہ عطر شیش نامی گاؤں جو ہماری مسجد سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے وہاں نماز جمعہ وعیدین وغیرہ پڑھائی جاتی ہیں جہاں ہمارے گاؤں کے تقریبا نصف لوگ جمعہ ادا کرنے جاتے ہیں۔

            گاؤں کے اکثر لوگوں کا اصرار ہے کہ ہمارے اپنے گاؤں منڈھار میں بھی نماز جمعہ کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے کیوں کہ ساتھ گاؤں گہوٹر جہاں آبادی اورمکانات وغیرہ بھی کم ہونے کے باوجود نماز جمعہ اداء کی جاتی ہے، تو ہمارے گاؤں میں بھی نماز جمعہ ہونی چاہیے، نیز لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ نماز جمعہ،  بیان وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے بچوں میں دینی معلومات اور مسجد کے عدم دلچسپی پائی جاتی ہے۔

مسئلہ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنی مسجد  " مسجدِبلال رضی اللہ عنہ "منڈھار میں نماز جمعہ پڑھاسکتے ہیں یا نہیں؟ 

جواب

 ضلع مانسہرہ کے مضافاتی علاقے عطر شیشہ سے ملحقہ آباد منڈھار جو عطر شیشہ سے محض دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، عطر شیشہ میں جمعہ وعیدین اگر شرعی شرائط کے مطابق ادا ہورہے ہیں ( یعنی وہاں ہرنوع اشیاء صرف کے لئے بازار ہے، سرکاری عمارتیں، پولیس چوکی اور سرکاری سطح کی پنچائیت کمیٹی کا دفتر وغیرہ قائم ہے) تو عطر شیشہ  فقہی لحاظ سے شہر یا قصبہ کبیرہ کے حکم میں شمار ہوگا، اور اس کی ملحقہ آبادی منڈھار جو بیان کے مطابق تین ہزار نفوس پر مشتمل ہے وہاں جمعہ وعیدین کی نماز اداء ہوسکتی ہے۔

            البتہ بہتر یہی ہے کہ مذکورہ مقام (عطر شیشہ وغیرہ)  کے اطراف کے لوگ جابجا  جمعہ ادا  کرنے کے بجائے کسی ایک بڑی مسجد میں اکٹھےہوکر جمعہ وعیدین ادا  کریں، جمعہ وعیدین کی بنیادی حکمتوں کا تقاضہ یہی ہے۔

فتح القدیر للکمال ابن الہمام میں ہے:

"لاتصح الجمعة إلا في مصر جامع ، أو في مصلى المصر ، و لاتجوز في القرى)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: { لا جمعة و لا تشريق و لا فطر و لا أضحى إلا في مصر جامع } و المصر الجامع : كل موضع له أمير و قاض ينفذ الأحكام و يقيم الحدود، و هذا عند أبي يوسف رحمه الله، و عنه أنهم إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم، و الأول اختيار الكرخي و هو الظاهر، و الثاني اختيار الثلجي، و الحكم غير مقصور على المصلى بل تجوز في جميع أفنية المصر؛ لأنها بمنزلته في حوائج أهله.

(قوله: و هو الظاهر) أي من المذهب. و قال أبو حنيفة : المصر بلدة فيها سكك وأسواق وبها رساتيق ووال ينصف المظلوم من الظالم وعالم يرجع إليه في الحوادث، و هذا أخص مما اختاره المصنف، قيل: و هو الأصح، و إذا كان القاضي يفتي و يقيم الحدود أغنى من التعدد : و قد وقع شك في بعض قرى مصر مما ليس فيها وال و قاض نازلان بها، بل لها قاض يسمى قاضي الناحية وهو قاض يولى الكورة بأصلها فيأتي القرية أحيانا فيفصل ما اجتمع فيها من التعلقات وينصرف ووال كذلك ، هل هو مصر نظرًا إلى أن لها واليًا و قاضيًا أو لا نظرا إلى عدمها منهما؟

والذي يظهر اعتبار كونهما مقيمين بها وإلا لم تكن قرية أصلا ، إذ كل قرية مشمولة بحكم.

وقد يفرق بالفرق بين قرية لا يأتيها حاكم يفصل بها الخصومات حتى يحتاجون إلى دخول مصر في كل حادثة لفصلها ، وبين ما يأتيها فيفصل فيها ، وإذا اشتبه على الإنسان ذلك ينبغي أن يصلي أربعا بعد الجمعة ينوي بها آخر فرض أدركت وقته ولم أؤده بعد ، فإن لم تصح الجمعة وقعت ظهره وإن صحت كانت نفلا ، وهل تنوب عن سنة الجمعة ؟ قدمنا الكلام في باب شروط الصلاة فارجع إليه ."

(کتاب الصلوۃ، باب الجمعة، ج:3،  ص:202، ط: دارالفکر)

     فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144303100262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں