بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو القعدة 1446ھ 25 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

شیعہ لڑکا اگر سنی مذہب اختیار کرے تر پھر سنی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے


سوال

میری بیٹی ایک شیعہ لڑکے کو پسند کرتی ہے اور اس سے نکاح کرنا چاہتی ہے، جب کہ میرا تعلق اہلِ حدیث مسلک سے ہے، اور میں کسی بھی صورت میں اپنی بیٹی کا نکاح اس شیعہ لڑکے سے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔اس شیعہ لڑکے سے میری بات ہوئی ہے، اور اس نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنے والدین کی اجازت اور رضامندی سے شیعہ مذہب چھوڑ کر اہلِ سنت کے فقہِ حنفی کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہے؛ لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں کہ: اگر وہ لڑکا واقعی اخلاص کے ساتھ شیعہ مذہب چھوڑ کر فقہِ حنفی اختیار کر لیتا ہے، اور اہلِ سنت والجماعت کے عقائد پر عمل پیرا ہونے کا عزم کرتا ہے،تو کیا ایسی صورت میں اس لڑکے سے میری بیٹی کا نکاح شرعاً جائز ہوگا یا نہیں؟نیز! اس نکاح کی شرعی و قانونی حیثیت کیا ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی شیعہ کے عقائد کفریہ ہوں، مثلًا: وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے بارے میں الوہیت   کا عقیدہ رکھے یا  حضرتِ جبریل علیہ السلام کے متعلق یہ عقیدہ رکھے کہ انہوں نے وحی پہنچانے میں غلطی  کی یا   حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کا  انکار  کرے یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر قذف و تہمت   لگائے تو  ایسا شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ اس صورت میں اہلِ سنت والجماعت کی کسی لڑکی کا اس سے نکاح کرنا نہ صرف ناجائز ہے، بلکہ شرعاً سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔

البتہ اگر وہ لڑکا صدقِ دل سے توبہ کرکے، کلمہ پڑھ کر تمام باطل عقائد سے براءت کا اظہار کرلے، اور  اہل ِ سنت و الجماعت کے عقائد کو دل وجان سے قبول کر لے تو نکاح شرعًا جائز ہوگا۔ البتہ یہ تبدیلی صرف زبانی نہ ہو، بلکہ عملی طورپر اس کی زندگی،عبادات، شعائر اور نظریات میں بھی تبدیلی واضح طور پر نظر آئے۔

اور اگر کسی شیعہ کے مذکورہ کفریہ عقائد نہ ہوں، تو بھی دیگر  گمراہ کن عقائد کے حامل ہونے  اور   فاسق و مبتدع ہونے کی وجہ سے وہ اہل سنت والجماعت لڑکی کا کفو اور ہمسر نہیں؛ اس لیے مذکورہ لڑکا جب تک اپنے عقائد سے صدق دل سے توبہ کر کے کلمہ پڑھ کر اہل سنت  والجماعت کے عقائد  اختیار نہ  کرے، اس کے ساتھ نکاح سے اجتناب ضروری ہے۔

مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’شیعوں کے مختلف فرقے ہیں:

وہ لوگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ میں اعتقادِ الوہیت رکھیں، یا یہ کہ حضرتِ جبریل علیہ السلام کے متعلق یہ عقیدہ رکھیں کہ انہوں نے وحی پہنچانے میں یا یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کا انکار کریں، یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر قذف و تہمت لگائیں تو ایسے لوگ کافر ہیں؛ کیوں کہ یہ لوگ قطعیات کا انکار کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ اہل السنت و الجماعت لڑکی کا نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ اور اگر نکاح کردیا گیا ہے تو وہ نکاح ہی نہیں ہوا۔ نکاح کالعدم و ناجائز ہے۔

دوسرا فرقہ جو اس قسم کے عقائد نہیں رکھے وہ کافر تو نہیں، البتہ مبتدع و فاسق ضرور ہے، جس سے نکاح بوجہ عدمِ کفاءت درست نہیں، اس صورت میں بھی اگر لڑکی کے والد کے سامنے خود کو اہل السنت و الجماعت ظاہر کرکے نکاح کرالیا ہو تب بھی بوجہ عدمِ کفاءت نکاح فسخ کرانے کا حق ہوگا۔

رد المحتار:

"و بهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل عليا أو يسب الصحابة فإنه مبتدع لا كافر.‘‘

(کتاب النکاح،ج:3،ص:46،ط:سعید)

فقط واللہ تعالیٰ اعلم

احقر ولی حسن (29 محرم الحرام 1382ھ)

فتاوی شامی میں ہے:

"أقول: نعم نقل في البزازية عن الخلاصة: أن الرافضي إذا كان يسب الشيخين و يلعنهما فهو كافر و إن كان يفضل عليا عليهما فهو مبتدع و هذا لايستلزم عدم قبول التوبة."

(کتاب الجہاد، مطلب توبة الیاس مقبولة، ج:4، ص:237، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" الرافضي إذا كان يسب الشيخين و يلعنهما والعياذ بالله، فهو كافر، و إن كان يفضل عليا كرم الله تعالى وجهه على أبي بكر - رضي الله تعالى عنه - لا يكون كافرا إلا أنه مبتدع والمعتزلي مبتدع إلا إذا قال باستحالة الرؤية، فحينئذ هو كافر كذا في الخلاصة.
ولو قذف عائشة - رضي الله تعالى عنها - بالزنا كفر بالله، ولو قذف سائر نسوة النبي صلى الله عليه وسلم لايكفر و يستحق اللعنة، ولو قال عمر وعثمان وعلي - رضي الله عنهم - لم يكونوا أصحابا لايكفر و يستحق اللعنة، كذا في خزانة الفقه ... و يجب إكفار الروافض في قولهم برجعة الأموات إلى الدنيا، و بتناسخ الأرواح و بانتقال روح الإله إلى الأئمة و بقولهم في خروج إمام باطن و بتعطيلهم الأمر و النهي إلى أن يخرج الإمام الباطن و بقولهم إن جبريل - عليه السلام - غلط في الوحي إلى محمد صلى الله عليه وسلم دون علي بن أبي طالب - رضي الله عنه -، و هؤلاء القوم خارجون عن ملة الإسلام وأحكامهم أحكام المرتدين، كذا في الظهيرية."

 (کتاب  السیر ،مطلب فی موجبات الکفر،264/2، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) تعتبر في العرب والعجم (ديانة)أي تقوى فليس فاسق كفؤا لصالحة أو فاسقة بنت صالح معلنا كان أو لا

قلت: والحاصل: أن المفهوم من كلامهم اعتبار صلاح الكل، وإن من اقتصر على صلاحها أو صلاح آبائها نظر إلى الغالب من أن صلاح الولد والوالد متلازمان، فعلى هذا فالفاسق لا يكون كفؤا لصالحة بنت صالح بل يكون كفؤا لفاسقة بنت فاسق، وكذا لفاسقة بنت صالح كما نقله في اليعقوبية، فليس لأبيها حق الاعتراض لأن ما يلحقه من العار ببنته أكثر من العار بصهره."

(کتاب النکاح ،باب الکفاءۃ،ج:3،ص:89،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(ومنها الديانة) تعتبر الكفاءة في الديانة وهذا قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - وهو الصحيح، كذا في الهداية فلا يكون الفاسق كفئا للصالحة، كذا في المجمع سواء كان معلن الفسق أو لم يكن، كذا في المحيط"

(کتاب النکاح ،الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح،ج:1،ص:291،ط:دار الفكر بيروت)

النتف فی الفتاوی میں ہے:

"الكفؤ في الدين

اما الكفؤ في الدين فهو علي وجهين

احدها ان يكون الرجل سنيا لا بدعيا

والثاني ان يكون مستورا لا يكون فاسقا"

(کتاب النکاح ،الکفو فی الدین،ج:1،ص:291،دار الفرقان - عمان)

فتاوی بینات میں ہے:

"سوال: کیا سنی لڑکی کا نکاح غیر سنی مرد کے ساتھ ہو سکتا ہے، اگر نہیں تو کیوں؟

الجواب باسمه تعالی

جو شخص عقیدہ کفر رکھتا ہو   مثلاً  قرآن کریم میں کمی بیشی کا قائل ہو یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتا ہو یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صفات الوہیت سے متصف مانتا ہو یا یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ حضرت جبریل علیہ السلام غلطی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پروحی لے آئے تھے یا کسی اور ضر ورت دینیہ کا منکر ہو ایسا شخص تو مسلمان ہی نہیں، اور اس سے کسی بھی عورت کا نکاح درست نہیں۔

جو شخص حضرات شیخین رضی  اللہ عنہما پر سب کرتا ہو اس کے کفر میں اہل علم کا اختلاف ہے،  مگر اس کے فسق و بدعات میں تو کوئی شک نہیں ، لہذا ایسا شخص  بھی سنی عورت کا کفو  نہیں  ۔  فقط واللہ اعلم

کتبہ محمد یوسف لدھیانوی

مینات ربیع الثانی 1400ھ "

(کتاب النکاح ،ج:3،ص:153،ط:مجلس دعوت و تحقیق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں