بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شہد کے چھتے کو چوہے نے کاٹ لیا ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

شہد کے چھتے کو چوہے نے مختلف جگہوں  سے کاٹ کھایا ہے،آیا اس کے کاٹنے سے شہد یا کوئی اور کھانے کی چیز نا پاک ہو جائے گی اور اس کو استعمال کرنا کیسا ہے؟

جواب

چوہا اگر کسی چیز میں منہ ڈال دے یاکسی چیز میں کچھ کھالے تو باقی بچے ہوئے (یعنی چوہے کے جھوٹے ) کو فقہاء کرام نے مکروہ قرار دیاہے؛ لہذا اگر چوہے نے شہد کے چھتے کو مختلف جگہوں سے  کاٹ کھایا ہے تو اس کے جوٹھے شہد اور چھتے کا استعمال کراہت کے ساتھ جائز ہے، احتیاطاً جہاں جہاں سے چوہے نے کھایا ہے اس کے آس پاس کا حصہ الگ کردیا جائے۔ اور اگر متبادل دست یاب نہ ہو تو اس شہد کے استعمال میں کراہت بھی نہیں ہوگی۔

البتہ اگر شہد میں چوہے کی مینگنیاں گری ہوں اور اتنی مقدار میں ہوں کہ جن کی وجہ سے شہد کے ذائقہ  یا رنگ میں فرق آچکا ہوتو اس صورت میں اس کا استعمال شرعًا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وسواكن بيوت) أي مما له دم سائل كالفأرة والحية والوزغة بخلاف ما لا دم له كالخنفس والصرصر والعقرب فإنه لايكره كما مر وتمامه في الإمداد  (قوله: طاهر للضرورة) بيان ذلك أن القياس في الهرة نجاسة سؤرها لأنه مختلط بلعابها المتولد من لحمها النجس لكن سقط حكم النجاسة اتفاقا لعلة الطواف المنصوصة بقوله: إنها ليست بنجسة إنها من الطوافين عليكم و الطوافات، أخرجه أصحاب السنن الأربعة وغيرهم ، وقال الترمذي: حسن صحيح، يعني أنها تدخل المضائق ولازمه شدة المخالطة بحيث يتعذر صون الأواني منها، وفي معناها سواكن البيوت للعلة المذكورة، فسقط حكم النجاسة للضرورة، و بقيت الكراهة لعدم تحاميها النجاسة".

(1/224، ط:دار الفكر للطباعة والنشر،بیروت)

وفیه أیضاً:

"(وسباع طير) لم يعلم ربها طهارة منقارها (وسواكن بيوت) طاهر للضرورة (مكروه) تنزيهًا في الأصح إن وجد غيره وإلا لم يكره أصلًا كأكله لفقير". (1/225، ایضاً)

وفیه أیضاً:

’’مبحث في بول الفأرة وبعرها وبول الهرة (قوله: وکذا بول الفأرۃ إلخ ) اعلم أنه ذکر في الخانیة أن بول الهرۃ والفأرۃ وخرأها نجس في أظهر الروایات یفسد الماء والثوب و لو طحن بعر الفأرة مع الحنطة ولم یظهر أثره یعفى عنه للضرورۃ. وفي الخلاصة:  إذا بالت الهرة في الإناء أو على الثوب تنجس، وکذا بول الفأرة، وقال الفقیه أبو جعفر: ینجس الإناء دون الثوب الخ. قال في الفتح: وهو حسن لعادۃ تخمیر الأواني، وبول الفأرۃ في روایة لا بأس به، والمشایخ على أنه نجس لخفة الضرورة بخلاف خرئها، فإن فیه ضرورة في الحنطة الخ. والحاصل أن ظاهر الروایة نجاسة الکل. لکن الضرورة متحققة في بول الهرة فی غیر المائعات کالثیاب، وکذا في خرء الفأرة في نحو الحنطة دون الثیاب والمائعات. وأمّا بول الفأرة فالضرورة فیه غیر متحققة إلا على تلك الروایة المارة التي ذکر الشارح أن علیها الفتوی، لکن عبارة التتارخانیة: بول الفأرة وخرؤها نجس، وقیل: بولها معفو عنه وعلیه الفتوى. وفي الحجة الصحیح أنه نجس الخ. ولفظ الفتوى وإن کان آکد من لفظ الصحیح إلا أن القول الثاني هنا تأید بکونه ظاهر الروایة، فافهم. لکن تقدم في فصل البئر أنّ الأصح أنه لاینجسه وقد یقال: إنّ الضرورۃ في البئر متحققة، بخلاف الأواني؛ لأنها تخمر کما مرّ فتدبر‘‘.

(رد المحتار، ج:1، ص:319، ط:دار الفكر للطباعة والنشر،بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111201108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں