بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شہر کی جامع چھوڑکر دوسری جگہ جمعہ پڑھنے کے لیے جانا کیسا ہے؟ جب کہ وہاں کا خطیب اچھا بیان کرتے ہوں


سوال

 ہم اکثر کراچی میں جمعہ کی نماز مختلف مساجد میں پڑھنے کے لیے جاتے ہیں ،مقصد مختلف علماء کے جمعہ کے خطبے کے بیانات سننا ہوتا ہے اور ان سے فیض حاصل کرنا ہوتا ہے ، ہماری اپنی مسجد میں بھی جمعہ ہوتا ہے، لیکن امام مسجد ایک تحریری لکھا لکھایا ہوا خطاب کرتے ہیں جسے سننے میں دلچسپی پیدا نہیں ہوتی اور چونکہ کراچی میں مختلف مدارس میں اعلی پائے کے علماء پائے جاتے ہیں، جیسے شیخ الاسلام مفتی تقی صاحب اور باقی کئی بڑے بڑے مدارس و مساجد ہیں،تو کیا ہم اپنے علاقے کی مقیمی مسجد کو چھوڑ کر کسی اور مسجد میں جا کر جمعہ پڑھنے جا سکتے ہیں؟ مقصد وہاں کے علماء کا بیان سننا ہوتا ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ محلے  کے باشندوں کے لیے اپنے محلہ  کی مسجد میں ہی جمعہ کی  نماز پڑھنا  افضل ہوگا، اس لیے کی محلہ   کی مسجد کو آباد کرنا وہاں کے رہنے والوں پر مسجد کا  حق ہوتاہے، لہذا محلہ   والوں کو چاہیے کہ  اپنے محلہ   کی مسجد کا حق ادا کریں اور اس میں نماز پڑھ کر اس کو آباد کریں، بلا وجہ اسے چھوڑ کر  کسی اور  جگہ  کی مسجد میں نما ز یا جمعہ کے لیے جانا اچھا نہیں ہے، لیکن اگر آپ کےمحلہ  کی جامع مسجد، جمعہ میں محلہ اور آس پاس کے نمازیوں سے آباد رہتی ہے، یعنی  جمعہ میں نمازیوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوجاتی ہے تو آپ صورت مسئولہ میں دوسری جگہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے جاسکتے ہیں۔

 عمدۃ القاری میں ہے:

"فقال النووي معناه ‌لا ‌فضيلة ‌في ‌شد ‌الرحال ‌إلى ‌مسجد ‌ما ‌غير ‌هذه ‌الثلاثة ونقله عن جمهور العلماء وقال ابن بطال هذا الحديث إنما هو عند العلماء فيمن نذر على نفسه الصلاة في مسجد من سائر المساجد غير الثلاثة المذكورة."

(ج:7، 253، ط: داراحیاء التراث العربی)

فتح الباری میں ہے:

"والصحيح عند إمام الحرمين وغيره من الشافعية أنه لا يحرم وأجابوا عن الحديث بأجوبة منها أن المراد أن الفضيلة التامة إنما هي في ‌شد ‌الرحال إلى هذه المساجد بخلاف غيرها فإنه جائز وقد وقع في رواية لأحمد سيأتي ذكرها بلفظ لا ينبغي للمطي أن تعمل وهو لفظ ظاهر في غير التحريم ومنها أن النهي مخصوص بمن نذر على نفسه الصلاة في مسجد من سائر المساجد غير الثلاثة فإنه لا يجب الوفاء به قاله بن بطال وقال الخطابي اللفظ لفظ الخبر ومعناه الإيجاب فيما ينذره الإنسان من الصلاة في البقاع التي يتبرك بها أي لا يلزم الوفاء بشيء من ذلك غير هذه المساجد الثلاثة ومنها أن المراد حكم المساجد فقط وأنه لا تشد الرحال إلى مسجد من المساجد للصلاة فيه غير هذه الثلاثة وأما قصد غير المساجد لزيارة صالح أو قريب أو صاحب أو طلب علم أو تجارة أو نزهة فلا يدخل في النهي ."

(ج:3، ص: 65، ط:  المكتبة السلفية .، مصر)

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"رجل يصلي في الجامع لكثرة الجمع ولايصلي في مسجد حيه فإنه يصلي في مسجد منزله و إن كان قومه أقل، وإن لم يكن لمسجد منزله مؤذن فإنه يؤذن ويصلي ... فالأفضل أن يصلي في مسجده ولايذهب إلي مسجد آخر."

(خلاصة الفتاوی،ج:1، ص:228، ط:المکتبة الرشیدیة)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"لأن لمسجد منزله حقًّا عليه فيؤدي حقه."

(قاضیخان علی هامش الفتاوی الهندية، ج:1، ص:27، ط:مکتبة حقانیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں