بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا سسرال والوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے بیوی کو ان کی ملاقات سے روکنے کا حکم


سوال

1.میرا سسرال والوں کے ساتھ تعلقات کچھ خراب ہوگئے ہیں اور اسی وجہ سے میرا اپنی بیوی کے ساتھ بھی تعلق خراب ہوگیا ہے،سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنی بیوی کو سسرال والوں سے منع کرسکتا ہوں یا نہیں ؟ کیوں کہ اسی وجہ سے ہمارا گھر خراب ہورہا ہے تو آیا شریعت مجھے اس بات کی اجازت دیتی ہے یا نہیں؟

2.دوسری بات یہ ہے کہ بیوی مجھ سے طلاق کا مطالبہ کررہی ہے حالاں کہ میں اس کے سارے حقوق ادا کررہا ہوں ، اس میں کوئی کمی نہیں کی ہے، تو کیا بیوی کا طلاق کا مطالبہ کرنا درست ہے؟اور اگر میں ایک طلاق دے دوں اور ان کو اپنے گھر بٹھادوں تو اس کی اجازت ہے یا نہیں؟

جواب

1.واضح رہے کہ شوہر کے لیے اس بات کی شرعا اجازت نہیں ہے  کہ وہ اپنی بیوی کو اس کے والدین یا سگے رشتہ داروں سے ملنے سے روکے ،بلکہ بیوی ہفتہ میں ایک بار اپنے والدین سے ملنے کا حق رکھتی ہے ،اور اسی طرح سال میں ایک بار اپنے  دیگر محارم رشتہ داروں سے ملنے کا بھی  رکھتی ہے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے یہ جائز نہیں کہ سسرال والوں سے تعلقات خراب ہونے کی بنا پر اپنی بیوی سے تعلق خراب کرے اور بیوی کووالدین سے ملنے سے روکے،البتہ اگر میکے والوں کی طرف سے فساد پھیلا یا جارہاہے تو اس کے ازالہ کی صورت یہ ہے کہ  بار بار ملاقات نہ کرائے ،بلکہ جس طرح سے شریعت نے حد بندی کی ہے ،اس کے مطابق عمل کرتے ہوئے  ہفتہ میں ایک بار والدین  سے،اور سال میں ایک بار دیگر محارم رشتہ داروں سے  ملاقات کرادے ،اور ملاقات یا تو اپنی موجودگی میں کرائے ،اور یا ایسے وقت میں کرائے کہ جب بے پردگی ،اور دیگر فساد پھیلنے کا امکان  نہ ہو۔

2.بیوی طلاق کا مطالبہ کیوں کررہی ہے اور اسے سائل سے کیا تکلیف ہےاس بارے میں بیوی سے معلوم کیا جائے،باقی اگر سائل کی طرف سے بیوی پر کوئی ظلم و ستم نہ ہو تو عورت کا  بلا وجہ شرعی شوہر سے طلاق  کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، حدیثِ مبارک میں آتا ہے کہ ’’جو عورت  بغیر کسی شرعی عذر کے  اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرےاس پر جنت کی خوش بو حرام ہے۔‘‘

لہذا مذکورہ صورت  میں بیوی کا بلا وجہ طلاق کا مطالبہ درست نہیں۔نیز اگر وہ طلاق کا اصرار کرے تو سائل ایک طلاق رجعی یعنی طلاق کے صریح الفاظ کے ساتھ ایک طلاق دے دے،ایک طلاق رجعی دینے کے بعد سائل بیوی کو اپنے گھر رکھ سکتا ہے اور عدت گزرنے سے پہلے سائل رجوع کرسکتا ہے چاہے بیوی کی رضامندی نہ ہو،البتہ اگر عدت میں رجوع نہیں کیا تو دونوں کے درمیان نکاح ختم ہوجائے گا،پھر سائل کو رجوع کا اختیار نہیں ہوگا،بلکہ دونوں کی رضامندی کے ساتھ شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ از سر نو نکاح کرنا پڑے گا،رجوع کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے گواہوں کی موجودگی میں  کہہ دے کہ میں نے رجوع کرلیا  ،البتہ اگر بیوی کے ساتھ ازدوجی تعلق قائم کیا تو اس سے بھی رجوع ہوجائے گا۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما ‌امرأة ‌سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة."

ترجمہ:’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو عورت  بغیر کسی مجبوری کے  اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرےاس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘

(باب في الخلع،  رقم:2226، ج:2، ص:268، ط:المكتبة العصرية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدًا من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك، قال بعضهم: لايمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا -رحمهم الله تعالى-، وعليه الفتوى، كذا في فتاوى قاضي خان، وقيل: لايمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرةً، وعليه الفتوى، كذا في غاية السروجي، وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر؟ وقال مشايخ بلخ: في كل سنة، وعليه الفتوى، وكذا لو أرادت المرأة أن تخرج لزيارة المحارم كالخالة والعمة والأخت فهو على هذه الأقاويل، كذا في فتاوى قاضي خان، وليس للزوج أن يمنع والديها وولدها من غيره وأهلها من النظر إليها وكلامها في أي وقت اختاروا، هكذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر، الفصل الثانی في السكني، ج:1، ص:556، ط:رشيدية) 

وفيه أيضا:

" وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."

(كتاب الطلاق ، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1 ، ص:470 ، ط:دارالفكر )

وفيه أيضا:

"‌وتنقطع ‌الرجعة إن حكم بخروجها من الحيضة الثالثة إن كانت حرة."

(كتاب الطلاق ، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1 ، ص:471 ، ط:دارالفكر )

وفيه أيضا:

"وهي –الرجعة- على ضربين: سني، وبدعي، فالسني أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة."

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:468، ط: ماجديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144605100785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں