بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شوال اور ذو الحجہ میں قضا روزے رکھنے کی صورت میں فضیلت کا حکم


سوال

اگر کوئی عورت رمضان کے جو روزہ نہیں رکھ سکی ، اگر  ان ہی روزوں کو  شوال یا عشرہ ذی الحجہ میں رکھے تو اس کو شوال یا عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت ملے گی یا نہیں؟

جواب

شوال  کے چھ روزوں کے متعلق جو حدیث وارد ہوئی اس کے الفاظ یوں ہیں "جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ روزہ رکھے تو گویا اس نے ایک مکمل سال کے روزے رکھے"۔ یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس سے مراد نفل روزہ ہیں ، قضا  روزے  مراد نہیں ہیں  ؛  لہذا شوال کے نفل  چھ  روزوں کی جگہ اگر قضا  روزہ رکھ لیے جائیں تو مذکورہ فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ (احسن الفتاوی)

9  ذو الحجہ اور  ذو الحجہ کے مکمل نو روزوں کے متعلق جو احادیث وارد ہوئی ہیں اس میں نفل ہونے کی کہیں  قید نہیں ہے گو  کہ  عمومًا ایسے فضائل نفل کے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور محدثین بھی ان احادیث کو نفل روزوں کے  ماتحت ہی لکھتے ہیں ؛  لہذا الفاظ کے عموم کو مد نظر رکھتے ہوئے ذو الحجہ میں قضا  روزہ رکھنے پر فضیلت کا ملنا بھی بعید نہیں ہے۔ ( احسن الفتاوی)

نیز  یہ بھی  واضح رہے کہ مذکورہ عورت پر جب قضا  روزے  واجب ہیں تو پھر  وہ نفل  روزے جن کا ذکر احادیث میں منقول ہے (مثلًا شوال اور ذوالحجہ کے  روزے)  وہ  رکھنے کی اجازت ہے،قضا  کو  مقدم کرنا ضروری نہیں ہے،  جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ہونے کی وجہ سے میں رمضان المبارک میں (ایام کی وجہ سے)  چھوٹے ہوئے روزے آئندہ شعبان میں رکھ پاتی تھی؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے، تو گویا انہیں بھی روزہ رکھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ البتہ اگر مذکورہ عورت کو  اس بات کا اندیشہ ہو کہ ان نفل روزوں کے ایام کے  بعد قضا  کا موقع نہیں ملے گا  اور قضا  کے ذمہ میں رہنے کا اندیشہ ہو تو پھر اصولًا  قضا  کو  مقدم کرنا چاہیے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"[تنبيه] ظاهر ما مر أن التهجد لايحصل إلا بالتطوع؛ فلو نام بعد صلاة العشاء ثم قام فصلى فوائت لا يسمى تهجدا وتردد فيه بعض الشافعية. قلت: والظاهر أن تقييده بالتطوع بناء على الغالب وأنه يحصل بأي صلاة كانت لقوله في الحديث المار «وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل»."

(کتاب الصلاۃ ،باب الوتر والنوافل ج نمبر ۲ ص نمبر ۲۴،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

«(ويجوز تأخير الفوائت) وإن وجبت على الفور (لعذر السعي على العيال؛ وفي الحوائج على الأصح) وسجدة التلاوة»والنذر المطلق وقضاء رمضان موسع. وضيق الحلواني، كذا في المجتبى.

(قوله: وفي الحوائج) أعم مما قبله أي ما يحتاجه لنفسه من جلب نفع ودفع ضره وأما النفل فقال في المضمرات: الاشتغال بقضاء الفوائت أولى وأهم من النوافل إلا سنن المفروضة وصلاة الضحى وصلاة التسبيح والصلاة التي رويت فيها الأخبار. اهـ. ط أي كتحية المسجد، والأربع قبل العصر والست بعد المغرب.

(قوله: وسجدة التلاوة) أي في خارج الصلاة؛ أما فيها فعلى الفور وفي الحلية من باب سجود التلاوة عن شرح الزاهدي أداء هذه السجدة في الصلاة على الفور، وكذا خارجها عند أبي يوسف. وعند محمد على التراخي، وكذا الخلاف في قضاء الصلاة والصوم والكفارة والنذور المطلقة والزكاة والحج وسائر الواجباتوعن أبي حنيفة روايتان، وقيل قضاء الصلاة على التراخي اتفاقا والأصح عكسه اهـ

(قوله: والنذر المطلق) أما المعين بوقت فيجب أداؤه في وقته إن كان معلقا، وفي غير وقته يكون قضاء ط (قوله وضيق الحلواني) قال في البحر بعد ذلك: وذكر الولوالجي من الصوم: أن قضاء الصوم على ‌التراخي، وقضاء الصلاة على الفور إلا لعذر. اهـ

(کتاب الصلاۃ باب قضاء الفوائت ج نمبر ۲ ص نمبر ۷۴،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"«وقضوا) لزوما (ما قدروا بلا فدية و) بلا (ولاء) لأنه على التراخي ولذا جاز التطوع قبله بخلاف قضاء الصلاة».

(قوله: جاز التطوع قبله) ولو كان الوجوب على الفور لكره لأنه يكون تأخيرا للواجب عن وقته المضيق بحر (قوله بخلاف قضاء الصلاة) أي فإنه على الفور لقوله صلى الله عليه وسلم: «من نام عن صلاة أو نسيها فليصلها إذا ذكرها» لأن جزاء الشرط لا يتأخر عنه أبو السعود وظاهره أنه يكره التنقل بالصلاة لمن عليه الفوائت ولم أره نهر قلت: قدمنا في قضاء الفوائت كراهته إلا في الرواتب والرغائب فليراجع ط."

(کتاب الصوم ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۲۳،ایچ ایم سعید)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

’’سوال:  اگر کسی شخص نے رمضان کی قضا  ایسے ایام میں کی کہ ان میں نفلی روزہ بھی مستحب اور سنت ہے تو ثواب نفلی روزہ کا بھی ہوگا یا نہیں؟

جواب: اس صورت میں وہ روزے قضا  کے ہوئے نفلی روزہ کا ثواب اس میں نہ ہوگا۔‘‘

(کتاب الصوم ،متفرق، ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۰۶،دار الاشاعت)

احسن الفتاوی میں ہے:

’’حدیث مسلم  من صام رمضان ثم اتبعه ستًّا من شوال  كان كصيام  الدهر ... اس سے یہی ثابت ہوا کہ نفل روزے مراد ہیں، ان ایام میں قضا  روزوں سے یہ فضیلت حاصل نہ ہوگی ۔۔۔ نصف شعبان و یومِ عرفہ کے روزہ میں تطوع کی قید کہیں سےثابت نہیں ہوتی ، اگرچہ ایسے فضائل کا ورود بالعموم نوافل ہی کے لیے ہے، مگر روایات  کے الفاظ مطلق ہیں ، ظاہر الفاظ کے پیش نظر ان دونوں میں قضا روزہ رکھنے کی فضیلت بعید نہیں،  بالخصوص جب کہ ’’أنا عند ظن عبدی بي‘‘  کی بشارت  بھی ہے۔‘‘

(کتاب الصوم ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۴۰، ایچ ایم سعید)

احسن الفتاوی میں ہے:

’’قضا  نماز پڑھنے کے لیے سنتِ مؤکدہ اور تراویح نہ چھوڑیں، بلکہ حضرات فقہاء رحمہم اللہ نوافلِ ماثورہ مثل چاشت ،اوابین اور صلاۃا لتسبیح و غیرہ کو بھی قضا  پر مقدم فرماتے ہیں، مگر یہ اس صورت میں  معلوم ہوتا ہے کہ اَسبابِ  ظاہرہ کے پیشِ  نظر موت سے  قبل قضا نمازوں سے سبک دوشی کی توقع ہو، اگر قضا  نمازیں بہت زیادہ ہیں اور عمر کم نظر آرہی ہے تو اصولًا نوافل پر قضا  کو ترجیح لازم ہے  ۔۔۔ الخ

(کتاب الصلاۃ باب قضاء الفوائت ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۰،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں