اگر کوئی شخص شیٹرینگ کا کام کرتا ہےاور اس کے پاس اپنی شیٹرینگ ہے تو وہ اپنی زکاۃ کس طرح نکالے گا؟
واضح رہے کہ مالِ تجارت میں زکاۃ اس چیز پر لازم ہوتی ہے جس چیز کو منافع کما کر بیچنے کی نیت سے خریدا جاتا ہو، اور جو چیز ایسی نہ ہو یعنی اس کو منافع کما کر فروخت نہ کیا جاتا ہو، بلکہ وہ محض استعمال کی جاتی ہو اس پر زکاۃ لازم نہیں ہوتی، مثلاً دفاتر میں ٹیبل، کرسیوں وغیرہ پر زکاۃ لازم نہیں ہو گی، اسی طرح پریس یا فیکٹری کی مال تیار کرنے والی مشینوں، استعمال کی گاڑیوں وغیرہ پر زکاۃ لازم نہیں ہو گی۔
لہذا اگر کوئی شخص شیٹرنگ کا کام کرتا ہےاور اُس کے پاس اپنی شیٹرنگ ہے تو اگر وہ شخص شیٹرنگ کو تعمیرات میں لگاتا ہو اور اس تعمیرات سے منافع کماتا ہو تو اس کے پاس موجود شیٹرنگ کے سامان پر زکاۃ لازم نہیں ہو گی، اس کی زکاۃ اس کی آمدن اور موجود کیش، سونا، چاندی وغیرہ پر ہو گی۔
لیکن اگر اس شخص کا کام ہی یہ ہو کہ وہ شیٹرنگ خرید کر منافع پر بیچتا ہے تو ایسی صورت میں یہ شیٹرنگ اس کے لیے مالِ تجارت ہو گی؛ لہذا اگر اس شیٹرنگ کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچتی ہو تو سال مکمل ہونے کے دن اس کے پاس جتنی مالیت کی شیٹرنگ موجود ہو گی، اس کی زکاۃ اس پر ادا کرنا لازم ہو گی۔
الفتاوى الهندية (1/ 179):
"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابًا من الورق والذهب، كذا في الهداية". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144108201447
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن