بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شطرنج کھیلنا کیوں ناجائز ہے؟


سوال

 میں نے فتوی دیکھا ہےکہ شطرنج کھیلنا ناجائز ہے، مگر ناجائز کیوں ہے، اس کا پس منظر کیا ہے؟

جواب

حضرت ابوموسي اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: شطرنج نافرمان آدمی ہی کھیلتا ہے، ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شطرنج شرط لگا کر کھیلا جائے یا بغیر شرط کھیلا جائے، یہ روایت دونوں صورتوں کو شامل ہے،  یہ روایت اگر چہ بظاہر صحابی کا قول ہے، لیکن حکم کے اعتبار سے یہ روایت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، کیوں کہ ایسی بات عقل سے نہیں کہی جاتی،  دیگر روایات سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے، جامع صغیر کی ایک حدیث میں ہے کہ: جو شطرنج کھیلے وہ ملعون ہے، اور جو اس کا تماشہ کرے وہ خنزیر کا گوشت کھانے والے کی طرح ہے۔

نیز  اگر شطرنج میں ہار جیت کی صورت میں طرفین کی طرف سےپیسے کی شرط ہو تو پھر تو اس کا ناجائز ہونا ظاہر ہے؛ کیوں کہ یہ ’’جوا‘‘ ہے،اور جوا اسلام میں حرام ہے، اسی طرح اگر شطرنج کی وجہ سے نماز یا دیگر فرائض ضائع کی جاتی ہو یا ان میں سستی کی جاتی ہو،یا شطرنج کے دوران گالم گلوج اورفخش گوئی کی جاتی ہو، تو ایسی صورت میں بھی شطرنج کا ناجائز ہونا ظاہر ہے، اور اگر یہ سب چیزیں نہ ہو تو پھر شطرنج کے ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں وقت کا ضیاع ہوتاہے اور اس سے لہو ولعب کا مزاج بن جاتا ہے ، اس لیے مکروہ تحریمی ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن ابن شهاب) أي: الزهري (أن أبا موسى الأشعري قال: لا يلعب بالشطرنج إلا خاطئ) : أي: عاص، وهو بإطلاقه يشمل ما يكون بالشرط وغيره، والحديث إن كان موقوفا، لكنه مرفوع حكما، فإن مثله لا يقال من قبل الرأي، وسيأتي عنه ما يعضد أنه مرفوع حقيقة. في شرح السنة: اختلفوا في إباحة اللعب بالشطرنج فرخص فيه بعضهم ؛ لأنه قد يتبصر به في أمر الحرب ومكيدة العدو، قلت: ما أضعف هذا التعليل وما أسخف هذا التأويل، مع النصوص الواردة في ذمه وعدم ثبوت فعله من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ولكن بثلاث شرائط: أن لا يقامر، ولا يؤخر الصلاة عن وقتها، وأن يحفظ لسانه عن الخنا والفحش، فإذا فعل شيئا منها فهو ساقط المروءة مردود الشهادة، وقد كره الشافعي اللعب بالشطرنج والحمام كراهة تنزيه، وحرمه جماعة كالنرد. قال مجاهد: القمار كله حرام حتى الجوز يلعب به اهـ.

قال المنذري: وممن ذهب إلى إباحته سعيد بن جبير، والشعبي، وذهب جماعات من أصحاب الحنفية إلى تحريمه كالنرد، هذا، وفي الجامع الصغير: «ملعون من لعب بالشطرنج، والناظر إليها كالآكل لحم الخنزير»، ورواه عبد بن حميد عن أبي موسى، وابن حزم عن حبة بن مسلم مرسلا، والمرسل حجة عند الجمهور، وقد تعاضدت الأحاديث الكثيرة الطرق في هذا المعنى، والله أعلم".

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: باب التصاوير (7/ 2858)، ط. دار الفكر، بيروت ، الطبعة: الأولى:1422هـ =2002م)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وحرم شرط الجعل من الجانبين لا من أحد الجانبين، ومعنى شرط الجعل من الجانبين أن يقول: إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك كذا وهو قمار فلا يجوز".

(الفتاوى الهندية: مسائل شتى  6/ 445، ط: رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں