بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صحت کارڈ کے ذریعے علاج کروانے کا حکم


سوال

آج کل ہما رے علاقے جنوبی پنجاب میں حکومت نے شناختی کارڈ کو صحت کارڈ بنا دیا ہے جس کے ذریے تمام لوگوں کو مفت علاج فراہم کیا جا رہا ہے ،حکومت نے ایک انشورنس کمپنی سے معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت ضلع بھر میں کل جتنے بھی افراد ہیں ان میں ہر فرد کے حساب سے متعینہ رقم ( مثلا 2000 روپے فی فرد ) حکومت نے ایک سال کےلیے انشورنس کمپنی کو ادا کر دیےہیں، حکومت نے ضلع بھر میں کچھ ہسپتالوں کو رجسٹرڈ کیا ہے،جن میں ہر شخص اپنا شناختی کارڈ دکھا کر اپنا مفت علاج کرا سکتا ہے ، حکومت نے ہر آپریشن کے لیےایک رقم مختص کی ہے، جو انشورنس کمپنی اس ہسپتال کو ادا کرنے کی پابند ہو گی، انشورنس کمپنی ایک سال میں ایک خاندان کا ساڑھے سات لاکھ تک کا مفت علاج کرا سکتی ہے،حکومت نے یہ کام اس لیے کیا ہے تا کہ عوام کو اچھا علاج سہولت کے ساتھ مل جائےاور عوام کو اس سہولت سے فائدہ بھی بہت ہو رہا ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ حكومت كا انشورنس كمپني سے معاہدہ کرنا كيساہے؟اور   مذکورہ ہسپتال سے علاج کرواکر فائدہ اٹھانا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  انشورنس کمپنی کے ساتھ علاج کرانے کا معاہدہ کرنا شرعاً صحیح نہیں ہے ،کیوں کہ  انشورنس کی بنیاد سود اور جوے پر ہے ،اور مذکورہ معاہدہ میں سود اس اعتبار سے ہے کہ حکومت نے انشورنس کمپنی کو فی فرد کے علاج کے لیے صرف 2000 روپے دیے ہیں ،اگر ایک مریض کے علاج پر 2000 سے زائد خرچہ آتا ہے تو انشورنس کمپنی وہ زائد رقم ہسپتال کو دینے کی پابند ہوتی ہے،تو یہ زائد رقم دینا سود ہے، ،اور جوا اس اعتبار سے ہے کہ جن افراد کے لیے حکومت نے انشورنس کمپنی کو علاج کے لیے  رقم دی ہے،اگر اُن میں سے کسی کو علاج کی نوبت  نہ آئے ،تو علاج  نہ ہونے کی صورت میں جمع شدہ رقم واپس نہیں ملتی ،انشورنس کمپنی اس کی مالک بن جاتی ہے۔

اگر علاج کرانے والا شخص مستحق زکوۃ نہیں ہے،تو اس کے لیے اس کارڈ کے ذریعہ صرف اُسی قدر رقم کی بقدر سہولیات حاصل کرنا جائز ہو گا  جتنی رقم اُس کی طرف سے  جمع کروائی گئی ہے، اس سے زائد  رقم سے استفادہ کرنا اور اس کے ذریعہ علاج کروانا جائز نہیں،البتہ اگر کوئی شخص مستحقِ زکوۃ ہو تو وہ اس کارڈ سے علاج کی سہولت حاصل کر سکتا ہے، کیوں کہ مالِ حرام کا مصرف بھی  غریب ہی ہیں ۔

قرآن کریم میں ہے:

"{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ  فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ}."[البقرة:278، 279]

ترجمہ:"اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو،  اگر  تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل  ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا  اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طرف  سے۔"(از بیان القرآن)

حدیث پاک میں ہے:

"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".

(الصحيح لمسلم، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، ج: 3، ص: 1219، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا: یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں، یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں اگرچہ مقدار اور کام میں مختلف ہیں۔"(از مظاہر حق)

قرآن مجید میں ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ." ﴿المائدة: ٩٠﴾

ترجمہ:" اے ایمان والو :بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام  ہیں ،سواس سے بالکل الگ رہو،تاکہ تم کو فلاح ہو"۔(بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم:إن الله حرّم أمتي الخمر و الميسر."

(المسند للامام احمد،2 /124،ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج: 6، ص: 403،ط:سعيد)

الاختيار لتعليل المختار  ميں ہے:

"و الملك الخبيث سبيله التصدق به ، و لو صرفه في حاجة نفسه جاز، ثم إن كان غنيًّا تصدق بمثله، و إن كان فقيرًا لايتصدق."

(كتاب الغصب، ج: 3، ص: 61، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں