بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایڈوانس زیادہ دے کر بغیر کسی شرط کے کرایہ میں کمی کرنا (جواز والی صورت)


سوال

میں نے پگڑی پر گھر کرایہ پر لیا ، میرے اور مکان مالک کے درمیان یہ طے ہوا کہ میں مکان کے مالک کو چھ لاکھ روپے ایڈوانس دوں گا اور ہر مہینے تین ہزار روپے دوں گا، مکان دو کمروں کا سپرٹ ہے ،مثلاً جس کا کرایہ دس ہزار روپے ہے ۔ میرے اور مکان مالک کے درمیان دو سال کا ایگریمنٹ ہوا ہے ،اب جب کہ میں دو سال کے بعد مکان خالی کروں گاتو مکان مالک مجھے چھ لاکھ روپے جو ایڈوانس دیا تھا وہ واپس کرے گا۔ 

اب آپ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ یہ معاملہ کرنا درست ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اور مکان مالک کے درمیان یہ طے ہوا کہ میں مکان مالک کو چھ لاکھ روپے ایڈوانس دوں گا اور کرایہ تین ہزارا روپے دوں گا ، اگر ایڈوانس زیادہ دینا اور کرایہ کم مقرر کرنا بغیر کسی شرط کے ہو تو یہ صورت جائز ہوگی ۔

اور اگر مذکورہ معاملہ شرط کے ساتھ ہو یعنی چھ لاکھ روپے ایڈوانس اس شرط کے ساتھ دیے ہوں کہ کرایہ دس ہزار کے بجائے تین ہزار یا چار ہزار روپے ہو گا تو یہ صورت جائز نہیں ہوگی، کیوں کہ یہ شرط پر نفع دینے اور لینے کی شرط ہے، جو شرعاً حرام ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فهي عقد على المنافع بعوض"۔

(کتاب الإجارة،ج:4،صل:409،ط:رشيديه)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الصحيحة: فلها أحكام، بعضها أصلي وبعضها من التوابع أما الحكم الأصلي فالكلام فيه في ثلاثة مواضع: في بيان أصل الحكم، وفي بيان وقت ثبوته، وفي بيان كيفية ثبوته.

أما الأول: فهو ثبوت الملك في المنفعة للمستأجر، وثبوت الملك في الأجرة المسماة للآجر؛ لأنها عقد معاوضة إذ هي بيع المنفعة، والبيع عقد معاوضة، فيقتضي ثبوت الملك في العوضين۔"

(کتاب الإجارہ،فصل فی صفۃ الإجارہ،ج:۴،ص:۲۰۱،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"[مطلب كل قرض جر نفعا حرام]

(قوله: كل قرض جر نفعا حرام) أي ذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرةوإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخيّ لا بأس به ويأتي تمامه."

( باب المرابحة و التولية، فصل في القرض، ج:۵،ص:۱۶۶،ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100487

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں