بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شروطِ فاسدہ کے ساتھ اجارہ کا حکم


سوال

شروطِ  فاسدہ کے ساتھ اجارہ ہوا تو اس سے جو فصل حاصل ہوگی، اس کا کیا بنے گا ؟حرام ہوگی  یا حلال؟

جواب

آپ نے اجارہ فاسدہ کی تفصیل نہیں لکھی کہ اس کی صورتِ  واقعہ کیا ہے؟اور کیا شرائط رکھی گئی ہیں، تاہم اصولی طور پر اجارہ فاسدہ کی صورت میں اگر جس کام کا عقد کیا ہے وہ شروع نہیں کیا گیا تو اس عقد کو ختم کردینا چاہیے اور اگر کام پورا کردیا گیا ہے تو مالک پر اجیر (مزدور)کے لیے اجرتِ  مثل  (یعنی اس کام کی عرف میں جو اجرت ہوتی ہے، وہ) لازم ہے، اور نفع میں خبث ہوگا۔

الاختيار لتعليل المختار - (2 / 60):

"( وإذا فسدت الإجارة يجب أجرالمثل ) لأن التسمية إنما تجب بالعقود الصحيحة. أما الفاسدة فتجب فيها قيمة المعقود عليه كما في البيع. وقال عليه الصلاة والسلام في النكاح بغير مهر: 'فإن دخل بها فلها مهرمثلها لا وكس ولا شطط' فدل على وجوب القيمة في العقد الفاسد."

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (6 / 45):

"باب الإجارة الفاسدة

(الفاسد ) من العقود (ما كان مشروعًا بأصله دون وصفه والباطل ما ليس مشروعًا أصلًا) لا بأصله ولا بوصفه (وحكم الأول) وهو الفاسد (وجوب أجر المثل بالاستعمال) لو المسى معلومًا،  ابن كمال (بخلاف الثاني) وهو الباطل فإنه لا أجر فيه الاستعمال."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں