بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت کے مال میں تصرف کرنا اور قرض دار کو مہلت دینا


سوال

ہم پانچ بھائیوں میں سے تین بھائی گھر اور کاروبار یعنی دکان میں ایک ساتھ تھے تقریباً آٹھ سال تک ،میرے بچے چونکہ بڑے تھے ،ان میں سے میرا بڑا لڑکا بھی تقریباً تین سال ہمارے ساتھ کام کرتا تھا یعنی ڈیوٹی دیتا تھا،انہی سالوں میں میری پہلی بیٹی کی شادی ہوئی،اس بیٹی کے شادی کے تین سال بعددوسری بیٹی کی شادی ہوئی ،دوسری بیٹی کی شادی کے دوران جب ان کی جہیز کے لیے میں سامان لیتاتھاتو میرا ایک بھائی بعض سامان کے اوپر اعتراض کرتے تھے ،مختلف صورتوں میں تومیں سمجھ جاتا کہ ان کو یہ چیز پسند نہیں ہےاور میں نے غیر ضروری سامان بھی نہیں لیا کہ وہ اعتراض کرتے ،بلکہ صوفہ وغیرہ جیسے کہ عام طور پر لڑکی کو جہیز میں دیا جاتا ہے ،تو میں ان کو تسلی دینے کےلیے کہہ دیا کہ بھئی میرے ساتھ بدگمان مت ہونا،اگر آپ کی بیٹی کے شادی ہوگی تو بھی اتنا ہی خرچہ کرلینا ،یاد رہے کہ میری پہلی بیٹی کی شادی پر تین لاکھ خرچ ہوئے تقریباًپانچ سال پہلے اور دوسری بیٹی کی شادی پر چار لاکھ خرچ ہوئے ،اور میں نے کہا کہ اگر خدانخواستہ ہم لوگ علیحدہ ہوئےتو ان سات لاکھ میں جو حصہ تم دونوں بھائیوں کا بنتاہے وہ میرے سےلےلینا،اب عرض یہ ہے کہ تین چار مہینے پہلے ہم تینوں بھائی علیحدہ ہوئے ہیں اب وہ ایک بھائی خاص کر یہ ڈیمانڈ کررہاہے کہ وہ آپ کی بیٹیوں کی شادی کا رقم مجھے دیدو،جب کہ دوسرے کی بھی یہی خواہش ہے اور اس وقت میرے پاس رقم بالکل نہیں ہے ،ہم تینوں اتنا کماتے ہیں جس سے گھر کا خرچہ ہوجاتاہے ،قرآن وسنت کی روشنی میں ان کا یہ ڈیمانڈ کرنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے شراکت کے مال سے 7لاکھ اپنے بیٹیوں کے شادی میں خرچ کےاور بھائیوں کے اس پر اعتراض کی صورت میں یہ وضاحت بھی کی تھی کہ ان کی بچیوں کی شادی یا کاروبار سے علیحدگی کے وقت اس رقم کا حساب کیاجائے گااور سائل یہ رقم اداکرئے گاتو اب اس رقم میں سے اپنے حصے کے علاوہ اضافی رقم وہ سائل اپنےدونوں بھائیوں کوواپس لوٹائے،اور اگر واقعۃً سائل کے پاس ابھی قرض  لوٹانے کے لیے رقم نہیں ہے تو سائل کے بھائیوں کو چاہیے کہ سائل کو قرض لوٹانے کےلیے کچھ عرصے کی  مہلت دےدیں،اور سائل بھی مقرر مدت میں اس رقم کو اداکرنے کی اہتمام کرے۔

فتح الباری میں ہے :

"روى مسلم من حديث أبي اليسر بفتح التحتانية والمهملة ثم الراء رفعه من أنظر معسرا أو وضع له أظله الله في ظل عرشه وله من حديث أبي قتادة مرفوعا من سره أن ينجيه الله من كرب يوم القيامة فلينفس عن ‌معسر أو يضع عنه ولأحمد عن بن عباس نحوه وقال وقاه الله من فيح جهنم واختلف السلف في تفسير قوله تعالى وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة فروى الطبري وغيره من طريق إبراهيم النخعي ومجاهد وغيرهما أن الآية نزلت في دين الربا خاصة وعن عطاء أنها عامة في دين الربا وغيره واختار الطبري أنها نزلت نصا في دين الربا ويلتحق به سائر الديون لحصول المعنى الجامع بينهما فإذا أعسر المديون وجب إنظاره ولا سبيل إلى ضربه ولا إلى حبسه."

(باب من أنظر معسرا،ج:4،ص:309،ط:دارالمعرفۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و لايجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه." 

( كتاب الشركة ، الباب الأول في بيان أنواع الشركة وأركانها وشرائطها وأحكامها، الفصل الأول في بيان أنواع الشركة،ج:2،ص:301 ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں