بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زنا میں بطور سزا قصاص نہ ہونے کی حکمت


سوال

قتل کا قصاص ہے توزناکاکیوں نہیں؟ اورجس کی بیوی کی عزت خراب ہووہ اس کا قصاص کیوں نہیں لے سکتا؟

جواب

واضح رہے کہ انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام کی بعثت کے مقاصد میں سے بڑا مقصد ظلم وزیادتی کاازالہ ہے،تو حکمت خداوندی نے چاہا کہ ان سب مظالم پر ایسی سخت تنبیہ کی جائے کہ لوگ آئندہ ایسی حرکتوں سے باز آجائیں ،اور یہ بات بخوبی واضح ہے کہ سب جرائم ایک درجہ کے نہیں ہے،تو لہذا اس پر جو سزائیں ہونی چاہیئے وہ بھی ایک درجہ کی  نہیں ہوں گی،اورپھر یہ کہ  جن جذبات سےیہ مظالم وجود میں آتے ہیں وہ بھی ایک درجہ کے نہیں ہے۔

پھر اس میں اصولی بات یہ  ہے کہ احکام اور شریعت کا دارومدار وحی پر ہے عقل پر نہیں ہے ،شریعت نے جہاں جس چیز کا حکم دیا ہے اس کو اسی حد تک رکھ کر اس پر عمل کر کے مان لیناچاہیے، لہذا اس میں عقل اور قیاسات کو دخل انداز نہیں کرنا چاہیےلیکن ہر چیز میں اللہ تعالی کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے اگر چہ وہ انسان کو سمجھ میں نہیں آتی ، اور شریعت نے جوسزائیں مقرر کی ہیں اور جو اس پر وعیدات سنائی ہیں ،وہ اس لیے کہ لوگوں کو گناہوں پر زجروتوبیخ ہوتی رہے ،اور لوگ سرکشیوں سے باز آجائیں ،اور دنیاسے فحاشیت کا خاتمہ ہوجائے ،اسی وجہ سے قرآن میں فرمایا گیا ہے "وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً"قرآن نے زنا کے قریب جانے سے بھی روکا ہے اور جو دواعی زناہے ان سے بھی روکا ہے یہ اسی وجہ سے کہ دنیا سے فحاشی کا نظام ختم ہوجائے ،تواب  اگر زنا میں بطور قصاص اسی کو مقرر کیا جاتا تو بجائے دنیا سے فحاشی ختم ہونے کے اور امن و امان قائم ہونے کے اور زیادہ بے حیائی کا دروازہ کھل جاتا ،اور اس طرح ایک بے امنی کی فضا قائم ہوجاتی ،اور پھر اس میں  یہ  حکمت بھی ہے کہ شریعت نے ہر جگہ انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے احکام لاگو کیے ہیں ،اورشریعت کایہ مزاج نہیں ہے کہ جرم ایک کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے ،اب اگر کوئی زنا کرتا ،  اور حکم یہ ہوتا کہ بدلہ میں ان کی عورت کے ساتھ یہ گہناؤنی  حرکت کی جائے گی ،تو یہ بجائے انصاف کے ظلم اور زیادتی پر مبنی حکم ہوتا ،کیونکہ دوسری عورت نے تو کوئی جرم نہیں کیا ،توپھر اس کو کیو ں  اس فعل کا سامناکرناپڑ رہا ہے ؟تو زنا جتنا سنگین اور بڑاجرم ہے شریعت نے اتنی ہی اس کی سزابھی بڑی مقرر کی ہے ،کہ محصن کو رجم کرنا ہے اور غیر محصن کو سو کوڑے لگانا ہے اور اس میں بھی حکمت ہے کہ زانی چونکہ سارے بدن کے ساتھ زنا کرتا ہے اور تمام بدن سے لذت لیتاہے اور قضائے شہوت کرتاہے تو اس لیے بدلے میں غیر محصن کے سارے بدن کو کوڑے ،اور محصن کو تمام بدن کے سنگسار کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔

(مأخوذ: حجۃ اللہ البالغہ، احکام اسلام عقل کی نظر میں، اسلام اور حدود  وتعزیرات)

قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ.  وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ." (النجم، 38، 39)

ترجمہ:  "یہ کہ کوئی شخص کسی کا گناہ اپنے اوپر نہیں لے سکتا، اور یہ کہ انسان کو صرف اپنی ہی کمائی ملے گی."

حجۃ اللہ البالغہ میں ہے:

"اعلم أن من أعظم المقاصد التي قصدت ببعثة الأنبياء عليهم السلام دفع المظالم من بين  الناس، فإن تظالمهم يُفسد حالهم، ويُضيق عليهم، ولا حاجة إلى شرح ذلك. والمظالم على ثلاثة أقسام: تعدّ على النفس، وتعد على أعضاء الناس، وتعد على أموال الناس، فاقتضت حكمة الله أن يُزْجَرَ عن كل نوع من هذه الأنواع بزواجر قوية، تردع   الناس عن أن يفعلوا ذلك مرة أخرى. ولا ينبغى أن يُجعل هذه الزواجر على مرتبة واحدة فإن القتل ليس كقطع الطرف، ولا قطع الطرف كاستهلاك المال، وإن الدواعى التي تنبعث منها هذه المظالم لها مراتب فمن البديهي أن تعمد القتل ليس كالتساهل المنجر إلى الخطأ. فأعظم المظالم القتل  وهو اكبرالكبائر، أجمع عليه أهل الملل قاطبتهم، وذلك لأنه طاعة النفس فى داعية الغضب، وهو أعظم وجوه الفساد فيما بين الناس، وهو تغيير خلق الله، وهدم بنيان الله، ومناقضة ما أراد الحق في عباده من انتشار نوع الإنسان."

(باب المظالم، ج: 2، ص: 389، ط: زمزم)

سنن ابو داؤد میں ہے:

"حدثنا ‌محمد بن العلاء، قال: ثنا ‌حفص - يعني ابن غياث - عن ‌الأعمش ، عن ‌أبي إسحاق، عن ‌عبد خير ، عن ‌علي قال: «لو كان الدين بالرأي لكان أسفل الخف أولى بالمسح من أعلاه، وقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح على ظاهر خفيه»".

(کتاب الطهارة، باب: کیف المسح، ج: 1، ص:143، رقم: 162، ط: بشری)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101120

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں