بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو القعدة 1446ھ 25 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

شریک سے کرایہ کا مطالبہ کرنا


سوال

ہم پانچ بھائیوں نے ایک عمارت تعمیر کی، پھر اس کو فروخت کر کے حاصل ہونے والی آمدنی سے ایک مکان خریدا۔ اس مکان میں تین بھائیوں نے رہائش اختیار کی۔ کرائے کے متعلق معاملات طے نہیں ہوئے تھے۔ اب باقی دو بھائی، جو رہائش پذیر نہیں ہیں، تین رہائش پذیر بھائیوں سے کرایہ طلب کر رہے ہیں، جبکہ رہائش پذیر بھائیوں کا کہنا ہے کہ ہم کرایہ کیوں دیں؟

لہذا، آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملے کو کیسے حل کیا جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر پہلے سے کوئی کرایہ طے نہیں کیا گیا تھا، تو ایسی صورت میں اُن تین بھائیوں سے — جو اب تک اس مکان میں رہائش پذیر رہے ہیں — باقی دو بھائیوں کو گزشتہ عرصہ  کا کرایہ طلب کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔البتہ مناسب یہ ہے کہ رہائش پذیر بھائی، دیگر بھائیوں کے  احسان کے پیشِ نظر از خود کچھ دے کر ان کو راضی کر لیں، تو یہ بہتر اور باعثِ خیر ہوگا۔
اسی طرح آئندہ کے لیے اگر دیگر دو بھائیوں کے حصے کے عوض کرایہ طے کر لیا جائے، تو اس کے بعد ان کا کرایہ کا مطالبہ شرعاً درست ہوگا۔

مجلۃ الاحكام العدليۃ میں ہے:

(المادة 1075)  أما إذا سكن أحد صاحبي الدار المشتركة فيها بلا إذن الآخر مدة فيكون قد سكن في ملكه فلذلك لا يلزمه إعطاء أجرة لأجل حصة شريكه واذا احترقت الدار قضاء فلا يلزمه ضمانها."

(الكتاب العاشر: الشركات، الباب الأول في بيان شركة الملك، ‌‌الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، ص:206، ط:نور محمد)

فتاوی شامی میں ہے:

"لو ‌واحد ‌من ‌الشريكين ‌سكن … في الدار مدة مضت من الزمن

فليس للشريك أن يطالبه … بأجرة السكنى."

(‌‌كتاب الوقف، ج:4، ص:337، ط:سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"إذا ‌أجر الرجل بعض ملكه فأما إذا ‌أجر أحد الشريكين نصيبه فالعقد جائز بلا خلاف."

(كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، ج:4، ص:176، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وأجمعوا أنه لو ‌آجر من شريكه يجوز سواء كان ‌مشاعا يحتمل القسمة أو لا يحتمل وسواء ‌آجر كل نصيبه منه أو بعضه كذا في الخلاصة."

(كتاب الإجارة، الباب السادس عشر في مسائل الشيوع في الإجارة،ج:4، ص:448، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144611100284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں