بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شریک کو اجیر بنانے کا حکم


سوال

  دو آدمی کسی کاروبار میں شریک ہوں اور دونوں کے سرمایہ کا تناسب بھی برابر ہو اور دونوں میں سے ایک کام بھی جانتا ہو، تو کیا کام کرنے والے شریک کے لئے اپنے نفع کے علاوہ کام کی الگ اجر ت لینا جائز ہے یانہیں ؟ خلاصہ یہ ہے کہ ایک شریک اپنے دوسرے شریک کو اجارہ پر لے سکتا ہے یا نہیں ؟ احسن الفتاوی ج:7،ص:328 میں کتاب الاجارۃ میں یہ مسئلہ حضرت مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ شریک کواجارہ پر لیناجائز ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایک شریک کا دوسرے شریک کے لیے اجیر بننا درست نہیں ہے، یعنی کاروبار میں شریک شخص کے لیے مشترکہ کاروبار میں کام کرکے اپنے طے شدہ نفع کے  علاوہ الگ سے تن خواہ لینا جائز نہیں ہے، چاہے دوسرا شریک  اس پر راضی ہی کیوں نہ ہو، ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں شریک کے اپنے عمل کی خود اپنے آپ کو اجرت دینا پایا جا رہا ہے جو کہ ناجائز ہے، اور معاہدے کے وقت کام کرنے والے شریک کا نفع زیادہ بھی طے نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ صورتِ مسئولہ میں ہونے والا معاملہ شرکتِ مفاوضہ ہے، جس میں دونوں شرکاء کا سرمایہ برابر ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ دونوں کا نفع بھی برابر ہو۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو استأجره ليحمل له نصف هذا الطعام بنصفه الآخر لا أجر له أصلا لصيرورته شريكا...  (ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له) ؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلا يستحق الأجر (كراهن استأجر الرهن من المرتهن) فإنه لا أجر له لنفعه بملكه... (قوله: فلا أجر له) أي لا المسمى ولا أجر المثل زيلعي؛ لأن الأجر يجب في الفاسدة إذا كان له نظير من الإجارة الجائزة وهذه لا نظير لها إتقاني، وظاهر كلام قاضي خان في الجامع أن العقد باطل؛ لأنه قال: لا ينعقد العقد."

(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، ج: 6 ص: 57-60، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(إما مفاوضة) من التفويض، بمعنى المساواة في كل شيء (إن تضمنت وكالة وكفالة) لصحة الوكالة بالمجهول ضمنا لا قصدا (وتساويا مالا) تصح به الشركة، وكذا ربحا كما حققه الواني (وتصرفا ودينا) لا يخفى أن التساوي في التصرف يستلزم التساوي في الدين."

(کتاب الشرکة، مطلب في شرکة العنان، ج: 4 ،ص: 306، ط: دار الفكر بيروت)

امداد الاحکام میں ہے:

" کیا شریک اجیر بن سکتا ہے؟ اور اس کے جواز کی کوئی صورت ہے یا نہیں؟ الخ

جواب:1-درست نہیں۔۔۔الخ۔"

(کتاب الاجارۃ، ج: 3،ص: 614-615، ط: دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں