بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شریک کا اپنے حصہ کاکرایہ مانگنا


سوال

میری اور میرے بھائی کی ایک  مشترکہ جگہ تھی ،میرے بھائی کا  اس میں کارخانہ تھااور وہ بھائی کے قبضہ میں تھی ، ہمارا معاہدہ  ہوا  کہ وہ میرے حصہ کا کرایہ دیں گے،وہ     مجھے اس کا کرایہ  دیتے رہے،بھائی کا انتقال ہوا ،پھر میرے بھتیجے اس  میں کام کرنے لگے اور دس سال  کا کرایہ  بھی دیا،اب سے دو سال پہلے  میرے بھتیجوں نے  کہا کہ ہم مشترکہ دیوار  بنا کر زمین آپ کو قانونی طریقے سے حوالہ کردیں گے،دو سال گزر گئےاور ابھی تک ان کے قبضہ میں ہے،کیا  میں گزشتہ دو سالوں کے کرایہ  کامطالبہ کر سکتا ہوں؟

وضاحت:سائل کا اپنے بھائی اور بھتیجوں   کے ساتھ   ماہا نہ کرایہ مقرر تھا ،اپنی مصلحت کے ساتھ جب چاہتے ادا کرتے تھے ،بھتیجوں نے بارہ سال زمین استعمال کی اور کرایہ دس سال کا  ادا کیا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں  چوں کہ سائل کااپنے مرحوم بھائی اور بھتیجوں سے یہ معاہدہ تھا، کہ سائل کو اس  کے حصہ کی زمین استعمال کرنے کے عوض ہر ماہ   کرایہ  ادا کیا جائے گا، اور  زمین بارہ سال سے اب تک اس  کے بھتیجوں کے قبضے اور استعمال  میں ہے، تو  جو کرایہ طے ہوا اس حساب سے اتنی مدت کا کرایہ وصول کرنا سائل کا حق ہے؛ لہذا جب سائل کے بھتیجوں نے اسے دس سال کا کرایہ ادا کیا ہے، تو   اس  کے لیے شرعاً بقیہ دو سالوں کے کرایہ کا بھی مطالبہ کرنا جائز ہے۔

شرح المجلة ميں ہے:

"ولكن لو حضر الشريك الاخر وتقاضي الاجر من الشريك الساكن فسكن بعده لزمه الاجر عن حصة شريكه لانه يكون التزاماّ."

(الباب العاشر في انواع الشركات،الفصل الثاني،ج:1،ص:478،ط:رشيديه)

 

فتاوی شامی میں ہے:

"وإذا قبض المستأجر الدار فعليه الأجرة وإن لم يسكن."

(کتاب الاجارہ، شروط الاجارہ، ج: 6،  ص: 11، ط: دارا لفکر بیروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508102078

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں