میں دبئی میں رہتا ہوں، ہم دو دوستوں نے مل کر ایک گاڑی لی ہے، گاڑی کی قیمت 20000 درھم ہے، جس میں میرے دس ہزار ہیں. اب گاڑی وہ کرائے پر چلاتا ہے مجھے مہینے کے 700 درھم دیتا ہے جو کے فکس کیے ہیں، کیا یہ فکس رقم سود میں شامل ہوگی ؟
صورتِ مسئولہ میں جب گاڑی دونوں کے درمیان مشترک ہے اور ایک شریک گاڑی چلاکر دوسرے کو اس کے حصے کا متعین کرایہ ادا کرتاہے تو ایسا کرنا جائز ہے، یہ سود میں شامل نہیں ہے۔
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:
"قال محمد رحمه اللّٰه تعالی: في رجل آجر نصف داره مشاعًا من أجنبي لم یجز، وإذا أجر من شریکه یجوز بلا خلاف في ظاهر الروایة، سواء کان مشاعًا یحتمل القسمة أو لایحتمل". (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۵؍۱۲۴ رقم: ۲۲۴۰۳) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109202366
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن