ہمارے والدین کا انتقال ہوا تھا،دونوں کے ترکہ میں کروڑوں کی جائیدادیں تھیں،تقسیمِ میراث کے حوالہ سے ہم نے جامعہ سے فتوی لیا تھا۔ اس فتوی کے حساب سے جس وارث کا جتنا حصہ بنتا ہے ، بڑے بھائی نے وہ حصہ اس کو نہیں دیا، بلکہ ہر ایک کو اپنی مرضی اور انداز ہ سے حصہ دیا، کسی کو بہت زیادہ دیا تو کسی کو بہت کم دیا۔
سوال یہ ہے کہ بھائی کا اس طرح کرنا شرعاً کیسا ہے؟
وضاحت:
پہلے والدہ کا انتقال ہوا، پھر والد کا انتقال ہوا، والدہ کی والدہ (سائل کی نانی ) بھی حیات ہیں۔
ورثاء میں 6 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
بہن نے سب ورثاء کی اجازت سے والدہ کے ترکہ میں سے کچھ زیورات لے لیے اور بقیہ اپنا حصہ چھوڑ دیا۔
والدین کے ترکہ کی کُل مالیت تقریباً آٹھ کروڑ ہے ۔
صورتِ مسئولہ میں ایک بھائی کا کُل مال کو اپنی مرضی سے غیر شرعی تقسیم کرنا ناجائز ہے، ایسے فعل پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ چناں چہ ایک حدیث میں ہے:
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»، رواه ابن ماجه".
(باب الوصایا، الفصل الثالث ، ج:2، ص:926، ط: المکتب الإسلامی)
ترجمہ :"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔"
(مظاہر حق، باب الوصایا، الفصل الثالث، ج:3، ص:235، ط: دار الاشاعت)
ایک اورحدیث میں ہے:
"عن سعيد بن زيد، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" من أخذ شبرا من الأرض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين."
(الصحيح لمسلم، باب تحريم الظلم والغصب وغيرها، رقم الحديث:1610، ج:3، ص:1231)
"حضرت سعید بن زیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جس شخص نے کسی کی زمین سے ظلماً ایک بالشت جگہ بھی لی اس کو قیامت کے دن سات زمینوں سے اس کا طوق پہنایا جائے گا"۔
لہذا بھائی کو چاہیے کہ اپنے اس فعل پر توبہ و استغفار کرے ، اور نئے سرے سے شرعی قانون کے مطابق کُل ترکہ کی تقسیم کرے۔
والدین کے ترکہ کی تقسیم کے لیے پہلے والدہ کا ترکہ تقسیم ہوگا پھر والد کا، والدہ کے ترکہ کی شرعی تقسیم اس طرح ہوگی کہ ان کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد،اگر ان پر کوئی قرضہ ہےتو اس کو کُل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد، اور اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہے اس کو باقی ترکہ کے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کے 596 حصے کرکے، سائل کی نانی کو 104 حصےاور بیٹوں میں سے ہر ایک کو 82 حصے ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت: والدہ،156/12تخارج: /149
شوہر | والدہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی |
3 | 2 | 7 | ||||||
39 | 26 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | تخارج |
فوت شدہ | 104 | 56 | 56 | 56 | 56 | 56 | 56 | - |
میت: والد، 13تخارج:12(4)۔۔۔۔۔ما فی الید: 39(13)
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 1 |
26 | 26 | 26 | 26 | 26 | 26 | تخارج |
فیصد کے اعتبار سے نانی کو 17.44 فی صداور ہر ایک بیٹے کو 13.75فیصد ملیں گے۔
مرحوم والد کے ترکہ کی شرعی تقسیم اس طرح ہوگی کہ ان کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد،اگر ان پر کوئی قرضہ ہےتو اس کو کُل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد، اور اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہے اس کو باقی ترکہ کے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کے13 حصے کرکے 2 حصے ہر ایک بیٹے کو اور 1 حصہ بیٹی کو ملے گا۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت: 13
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 1 |
فیصدی اعتبار سے 15.38 فیصد ہر ایک بیٹے کو اور 7.7 فیصد بیٹی کو ملیں گے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
(کتاب الحدود، باب التعزیر، ج:4، ص: 61، ط: دار الفکر)
الدر المختار میں ہے:
"(ومن صالح من الورثة) والغرماء على شئ معلوم منها (طرح) أي أطرح سهمه من التصحيح وجعل كأنه استوفى نصيبه (ثم قسم الباقي من التصحيح) أو الديون (على سهام من بقي منهم) فتصح منه."
(کتاب الفرائض، ص:772، ط:دار الکتب العلمیة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144511101756
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن