مرد کتنے نکاح کر سکتا ہے؟
واضح رہے کہ مرد کے لیے زندگی میں نکاح کی تعداد متعین نہیں ہے، البتہ ایک وقت میں چار بیویوں سے زیادہ بیویاں نکاح میں رکھنا ناجائز ہے۔ نیز چار بیویاں رکھنے کے لیے بھی شریعت نےچاروں بیویوں کے ہر معاملہ میں برابری (عدل و انصاف) کی شرط رکھی ہے، اگر مرد عدل و انصاف نہ کرسکتا ہو پھر ایک بیوی پر اکتفاء کا حکم ہے۔
قرآن پاک میں ہے:
"وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْ".
ترجمہ:" اگر تم کو اس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو اور عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں نکاح کرلودو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چار چار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھو گے، تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری مِلک میں ہو وہی سہی۔ اس امرِ مذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب تر ہے۔"
(بیان القرآن، سورۃ النساء، آیت نمبر:3، ج:2، ص91، ط:میرمحمد کتب خانہ-کراچی)
تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير میں ہے:
"المسألة السابعة: قوله: مثنى وثلاث ورباع محله النصب على الحال مما طاب، تقديره: فانكحوا الطيبات لكم معدودات هذا العدد، ثنتين ثنتين، وثلاثًا ثلاثًا، وأربعًا أربعًا".
(سورة النساء، الآية:3، ج:9، ص:488، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) صح (نكاح أربع من الحرائر والإماء فقط للحر) لا أكثر".
(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، فروع طلق امرأته......الخ، ج:3، ص:48، ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144502100716
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن