بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو القعدة 1446ھ 23 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

شریعہ کمپلائنٹ شیئرز میں سرمایہ کاری کا حکم


سوال

اسٹاک ایکسچینج میں بہت ساری کمپنیاں شریعہ کمپلائنٹ ہیں۔ کیا ان میں جائز شرائط کے ساتھ سرمایہ کاری کی اجازت ہے، جبکہ وہ سارا نفع شئیر ہولڈرز میں تقسیم نہیں کرتے؟

جواب

 کراچی اسٹاک ایکسچینج کی ویب سائٹ  (https://www.psx.com.pk/psx/themes/psx/uploads/brochure-all-shares-Islamic-index-of-pakistan.pdf)  پر موجود معلومات کے مطابق  کسی کمپنی کے شئیرز کے اسلامک (شریعہ کمپلائنٹ ) ہونے کے لیے چھ شرائط مذکور ہیں:

الف) اس کمپنی کا کاروبار حلال ہو۔

ب) کمپنی کے کل اثاثوں کے مقابلہ میں  سودی قرضوں کی صورت میں لیے گئے قرضوں کا تناسب 37 فیصد ہو۔

ج)کمپنی کے کل اثاثوں کے مقابلہ میں غیر شرعی سرمایہ کاری (مثلا کسی بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم لگانا  وغیرہ) کا تناسب  33 فیصد سے کم ہو۔

د)کمپنی کی غیر شرعی (حرام) کمائی (مثلا سود کی مد حاصل شدہ رقم) کا تناسب کل آمدن (ریونیو) کے مقابلہ میں  5 فیصد ہو۔

ہ) کمپنی کے جامد اثاثوں کا تناسب کل اثاثوں کے مقابلہ میں کم سے کم 25  فیصد ہو۔

و) کمپنی کے شیئرز کے بازاری قیمت کم سے کم کمپنی کے سیال اثاثوں (یعنی وہ اثاثہ جو فوراً اور بسہولت نقدی میں تبدیل ہوسکیں)   سے زائد ہو۔

مذکورہ شرائط  کسی کمپنی کو شریعہ کمپلائنٹ بنانے کے لیے  ناکافی ہیں۔ مندرجہ بالا شرائط میں جوشرعی  نقص ہے اس کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :

الف) شرط نمبر" ب" میں مذکورہ ہے کہ "کل اثاثوں کے مقابلہ میں سودی قرض کا تناسب اگر 37  فیصد سے کم ہو " یہ شرط ناقص ہے کیونکہ شرعی حکم یہ ہے کہ جس کمپنی کے شئیرز لیے جارہے ہیں وہ کمپنی  کسی قسم کا  سودی قرض لیتی ہی  نہ ہو کیونکہ شئیرز خریدنے والا شرعا اس کمپنی میں شریک ہے اور کمپنی کے ذمہ داران  اس کمپنی کے  شئیرز خریدنے والے کے وکیل ہیں اور  وہ کسی قسم کا سودی قرض لیں گے تو شرعا اس میں اس کمپنی کے شئیرز کا خریدار بھی شریک شمار ہوگا چاہے وہ شخص دل سے ان سودی قرضوں پر راضی نہ ہو کیونکہ ان ناجائز  معاملات کے علم کے باوجود شئیرز خرید کر اس کمپنی کا حصہ بنے رہنا کمپنی کے سودی معاملات پر رضامندی  کی دلیل ہے، لہذا  ایسا شخص  اللہ کے ہاں گناہ گار ہوگا لہذا یہ شرط لگانا کہ 37 فیصد سے کم ہو تو جائز ورنہ ناجائز ہے کیونکہ اگر 1 فیصد بھی کمپنی سودی قرض لے گی تو ذمہ داران کے ساتھ ساتھ شئیرہولڈرز  بھی سود کے گناہ میں شریک ہوں گے۔

ب) شرط نمبر "ج "میں مذکور ہے کہ"کمپنی کے کل اثاثوں کے مقابلہ میں غیر شرعی سرمایہ کاری (مثلا کسی بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم لگانا  وغیرہ) کا تناسب  33 فیصد سے کم ہو" یہ شرط بھی ناقص ہے بلکہ شرعی حکم یہ ہے کہ وہ کمپنی کسی قسم کی بھی ناجائز سرمایہ کاری نہ کرتی ہو کیونکہ وہ کمپنی اگر معمولی قسم کی غیر شرعی سرمایہ کاری کرے گی تو شرعا شئیرہولڈرز  بھی اس میں شریک شمار ہوگا گو کہ وہ اس پر راضی نہ ہو کیونکہ ذمہ داران تمام شئیر ہولڈرز کی طرف سے وکیل ہوتے ہیں لہذا شئیر ہولڈرز بھی  غیر شرعی سرمایہ کاری پر گناہ گار ہوگا۔

۳) شرط نمبر "ہ "میں مذکور ہے کہ"کمپنی کی غیر شرعی (حرام) کمائی (مثلا سود کی مد حاصل شدہ رقم) کا تناسب کل آمدن کے مقابلہ میں  5 فیصد ہو" یہ ماقبل والی شرط سے ہی متعلق ہے کیونکہ غیر شرعی سرمایہ کاری جب ہوگی تب غیر شرعی آمدنی بھی ہوگی لہذ ا جیسے ما قبل میں گزر چکا کہ معمولی قسم کی بھی غیر شرعی سرمایہ کاری قابل تسامح نہیں ہے تو معمولی قسم کی حرام کمائی بھی قابل تسامح نہیں ہے اس اجازت کا صاف مطلب یہ نکلے گا کہ  سود آمیز معاملات کی فی الجملہ گنجائش ہے جو کہ قطعا غیر اسلامی مزاج اور مقاصد شریعت کی نفی پر مشتمل ہے،لہذا یہ شرط بھی ناقص ہے۔ کسی کا یہ کہنا کہ یہ حرام کمائی صدقہ کردی جائے گی تو اس کے متعلق یہ سمجھنا چاہیے کہ حرام کمائی لا علمی یا غیر اختیاری طور پر ملکیت میں آجائے تو ا س کا حکم صدقہ کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حرام کمائی کی سبیل قصداًاختیار کی جائے اور پھر اس کو مستقل بنیاد  پر صدقہ کیا جائے۔

مزید یہ کہ وہ کمپنیاں اور ادارے جو اسلامی بینکوں سے فائنانسنگ لیتے ہیں یا اسلامی بینکوں یا تکافل کمپنیوں وغیرہ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں چاہے کسی بھی مقدار میں کرتے ہیں وہ تمام ادارے اسٹاک ایکسچینج کے ضابطہ کے تحت شریعہ کمپلائنٹ شمار ہوں گے جبکہ اسلامی بینکوں اور تکافل کمپنیوں کے معاملات شریعت کے مطابق نہیں ہیں۔

لہذا شریعہ کمپلائنت کمپنیوں میں بھی سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے۔

ان کمپنیوں کے شئیرز میں سرمایہ کاری جائز ہے جس میں درج ذیل شرائط پائی جاتی ہوں:

1۔ جس کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت کی جارہی ہو، خارج میں اس کمپنی کا وجود ہو، صرف کاغذی طور پر رجسٹرڈ نہ ہو۔

2۔  اس کمپنی کے کل اثاثے صرف نقد کی شکل میں نہ ہوں، بلکہ اس کمپنی کی ملکیت میں جامد اثاثے بھی موجود ہوں۔

3۔ کمپنی کا کل یا کم از کم اکثر سرمایہ حلال ہو۔

4۔ کمپنی کا کاروبار جائز ہو، حرام اشیاء کے کاروبار پر مشتمل نہ ہو۔

5۔ شیئرز کی خرید و فروخت میں، خرید و فروخت کی تمام شرائط کی پابندی ہو۔ (مثلاً: شیئرز خریدنے کے بعد وہ مکمل طورپرخریدار کی ملکیت میں  آجائیں، اس کے بعد انہیں آگے فروخت کیا جائے، خریدار کی ملکیت مکمل ہونے اور قبضے سے پہلے شیئرز آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا، اسی طرح فرضی خریدوفروخت نہ کی جائے۔)

6۔ حاصل شدہ منافع کل کا کل شیئرز ہولڈرز میں تقسیم کیا جاتا ہو، (احتیاطی) ریزرو کے طور پر نفع کا کچھ حصہ محفوظ نہ کیا جاتا ہو۔

7- شئیرز کی خریداری کے بعد وہ کمپنی کسی سودی معاملہ میں  کا حصہ نہ بنے نہ کسی قسم کا سودی قرض لے اور نہ ہی سودی منافع حاصل کرے ورنہ خریدار بھی ان معاملات میں کمپنی کا شریک بن جائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو استقرض أحد شريكي العنان مالا للتجارة لزمهما، كذا في فتاوى قاضي خان، وهكذا في البدائع ومحيط السرخسي."

(کتاب الشرکۃ، ج نمبر ،۲ ص نمبر ۳۲۲، دار الفکر)  

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"ليس لأحد الشريكين أن يقرض مال الشركة لآخر ما لم يأذنه شريكه، لكن له أن يستقرض لأجل الشركة ومهما استقرض أحدهما من النقود يكون دين شريكه أيضا بالاشتراك)».........ولكن له أن يستقرض لأجل الشركة ولو لم يكن إذن صريح من الشريك بالاستقراض، لأنه لما كان المستقرض يملك القرض بالاستقراض ويصبح بعد مكلفا بأداء مثله للمقرض أصبح الاستقراض معنى تجارة ومبادلة (رد المحتار) ، ولأنه تمليك مال بمال فكان بمنزلة الصرف (البحر)

ومهما استقرض أحد الشريكين من النقود يكون دين شريكه أيضا بالاشتراك، ولكن تجب التأدية على الشريك المستقرض وليس للمقرض مطالبة الشريك الغير المستقرض بالقرض."

(کتاب الشرکۃ، مادہ:۱۳۸۰، ج نمبر ۳ ص نمبر ۴۰۴،دار الجیل)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " «ليأتين على الناس زمان لا يبقى أحد إلا أكل الربا فإن لم يأكله أصابه من بخاره ويروى من غباره» . رواه أحمد وأبو داود والنسائي وابن ماجه.

فإن لم يأكله أصابه من بخاره ويروى من غباره) أي يصل إليه أثره بأن يكون شاهدا في عقد الربا أو كاتبا أو آكلا من ضيافة آكله أو هديته، والمعنى أنه لو فرض أن أحدا سلم من حقيقته لم يسلم من آثاره."

(کتاب البیوع، باب الربا، ج نمبر ۵، ص نمبر ۱۹۲۲، دار الفکر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عبد الله بن حنظلة غسيل الملائكة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «درهم ربا يأكله الرجل وهو يعلم أشد من ستة وثلاثين زنية»" رواه أحمد والدارقطني."

(کتاب البیوع، باب الربا، ج نمبر ۵، ص نمبر ۱۹۲۲، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101967

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں