بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جئے شری رام بولنے کا حکم


سوال

 ہمارے یوپی میں ودھایکی (یوپی اسمبلی) کا الیکشن ہوا تھا جس میں ہمارے یہاں سے ایک غیر مسلم امیدوار تھے تو ہمارے مسلمان بھائی سے جے شری رام کا نعرہ لگ گیا تھا جبکہ وہ اس پر بہت شرمندہ ہے تو اب اس کو کیا کرنا چاہیے اور اس کا کیا حکم ہے کیا اس کا نکاح ٹوٹ گیا یا کافر ہو گیا یا دوبارہ کلمہ پڑھے برائے مہربانی تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ "جے"کامعنی ہے"زندہ باد،یعنی جیتے رہو"اور "شری"کا لفظ ادب کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا معنی ہے "صاحب،جناب "اور"رام " ہندو مذہب میں ان کامعبود اور بھگوان مانا جاتا ہے،لہذا"جے شری رام "کا معنی ہوا"رام بھگوان جی جیتے رہیں" اور یہ نعرہ ہندوؤں کا ایک مذہبی نعرہ اور مذہبی شعار ہے،جیسے  مسلمان اللہ رب العزت کو پکارنے کے  لیے "یا اللہ"کہتے ہیں ،ایسے ہندواپنے بھگوان کو پکارنے کے لیے یہ نعرہ لگاتے ہیں۔

جس شخص نے جان بوجھ کر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیا جس سے کفر لازم آتا ہےتو اس پر تجدید ایمان بھی لازم ہے ۔  اگرغلطی سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے (مثلاً کہنا کچھ اور چاہ رہاہو اور زبان سے کفریہ جملہ نکل جائے) تو اس کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا،لہذا اس صورت میں ایمان اور نکاح کی تجدید لازم نہیں ہوگی۔ البتہ احتیاطاً استغفار کرلینا چاہیے۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ نعرہ  اگر جان بوجھ کر لگایا گیا تھا  تو یہ کلمہ کفر ہے  مذکورہ شخص  پر  تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح ضروری ہے۔

 فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومن تکلم بها مخطئًا أو مکرهًا لایکفر عند الکل".

(باب المرتد جلد 4 ص: 224 ط: سعید)

و فیہ ایضاً: 

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع".

قال ابن عابدین رحمه الله:

قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها  عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ".

(باب المرتد جلد 4 ص: 224 ط: سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:کسی ہندوکو"رام رام"کرنےیا لینے سے کفر عائد ہوجاتا ہے؟یا"جے رام"کرنے سے؟

"جواب:اسلامی شعائر"السلام علیکم "ہے،غیر اسلامی شعائر کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے،پھر اگر وہ غیر کا شعار ہوتو اس کو اختیار کرنا معصیت ہے،اگر مذہبی شعار ہو تو کفر تک پہنچ جانے کا خطرہ ہے۔"

(ج:19،ص:96،ط:زیر نگرانی دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

وفیہ ایضاً:

"غیر مسلم کے شعارِ قومی کو اختیار کرناگناہِ کبیرہ ہے اور شعارِ مذہبی کو اختیار کرنا بلاضرورتِ معتبرہ عند الشرع کفر ہے۔"

(ج:19،ص:553،ط:زیر نگرانی دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

کفایت المفتی میں ہے:

"رام رام کہنا سلامِ شرعی کی جگہ گناہ ہےکہ یہ کفار کا شعار ہے۔"

(ج:9،ص:109،ط:دار الاشاعت)

فیروزاللغات میں ہے:

"(جے):زندہ باد۔(شری):جناب ،صاحب۔"

(ص:540،841،ط:فیروز سنز)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144310100231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں