بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرعی معذور مغرب کی نماز کے لیے وضو کب کرے؟


سوال

 شرعی معذور مغرب کی نماز کا وضو کس وقت کرے؟ اگر مغرب کا وقت شروع ہونے کے بعد وضو کرتا ہے تو جماعت جانے کا اندیشہ ہے،لہٰذا راہنمائی فرمائیں کہ مغرب کا وضو کتنی دیر پہلے کیا جاسکتا ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں  شرعی معذور کا حکم یہ ہے کہ وہ کسی بھی نمازکاوقت شروع ہونے کے بعد وضو کرسکتا ہے، اور جب تک وہ وقت باقی ہے تو اس کا وضو باقی رہتا ہے، اور مغرب کا وقت سورج غروب ہوجانے کے بعد شروع ہوتا ہے، لہذا شرعی معذور مغرب کی نماز کے لیے سورج غروب ہوتے ہی وضو کرسکتا ہے، وضو ہوجانے کے بعد جماعت میں شریک ہوجائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" (وحكمه الوضوء لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.

(قوله: اللام للوقت) أي: فالمعنى لوقت كل صلاة، بقرينة قوله بعده فإذا خرج الوقت بطل، فلا يجب لكل صلاة خلافا للشافعي أخذا من حديث «توضئي لكل صلاة» قال في الإمداد: وفي شرح مختصر الطحاوي روى أبو حنيفة عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة - رضي الله عنها - «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال لفاطمة بنت أبي حبيش: توضئي لوقت كل صلاة» ولا شك أنه محكم؛ لأنه لا يحتمل غيره بخلاف حديث " لكل صلاة " فإن لفظ الصلاة شاع استعماله في لسان الشرع والعرف في وقتها فوجب حمله على المحكم وتمامه فيه.

(قوله: ثم يصلي به) أي: بالوضوء فيه أي: في الوقت (قوله: فرضا) أي: أي فرض كان نهر أي: فرض الوقت أو غيره من الفوائت (قوله: بالأولى) ؛ لأنه إذا جاز له النفل وهو غير مطالب به يجوز له الواجب المطالب به بالأولى، أفاده ح، أو؛ لأنه إذا جاز له الأعلى والأدنى يجوز الأوسط بالأولى (قوله: فإذا خرج الوقت بطل) أفاد أن الوضوء إنما يبطل بخروج الوقت فقط لا بدخوله خلافا لزفر، ولا بكل منهما خلافا للثاني وتأتي ثمرة الخلاف.

(أحكام المعذور، ج:1، ص:305، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309100777

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں