بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرعی گواہوں کی موجودگی میں شوہرکا طلاق دینے کے بعد انکار کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص کا اپنی بیوی سے جھگڑا چل رہا تھا ،سسرال گیا تو ساس نے کہا کہ تم میری بیٹی کو طلاق دے دو ،تو اس نےجواباً کہا کہ میں نے اسے طلاق دی، یہ فارغ ہے، میں نے اسے طلاق دی ،یہ فارغ ہے، اب یہ شخص اس گفتگو کا مکمل انکار کرتا ہے جبکہ دومرد موقع کے گواہ ہیں کہ اس نے یہ الفاظ کہے ہیں ،سوال یہ ہے کہ اس شخص کا انکار معتبر ہے یا نہیں اور اگر طلاق واقع ہوئی ہے تو کتنی؟

جواب

 صورت مسئولہ میں ساس   کا  دامادپریہ دعوی کہ اس کے کہنے پردامادنے یہ جملہ "میں نے اسے طلاق دی، یہ فارغ ہے، میں نے اسے طلاق دی ،یہ فارغ ہے"کہہ  کرطلاق دی، اوردامادمذکورہ جملہ کہنے سےانکارکررہاہے،تو ایسے اختلاف کی صورت میں کسی ایک بات پرفتوی نہیں دیاجاسکتاہے بلکہ اس کا شرعی حل یہ ہے کہ  دونوں (ساس اورداماد )   کسی مستند عالم ِدین یا مفتی کے پاس جاکر انہیں اپنے اس مسئلے کا  فیصل/ثالث مقرر کریں،پھروہ فریقین کاموقف اورشہادات کاجائزہ لےکرجوشرعی فیصلہ دیں اس پردونوں فریقین عمل کریں،نیزجب تک دونوں کےدرمیان شرعی فیصلہ نہ ہوتب تک میاں بیوی ایک دوسرے سےالگ رہیں۔

قرآن مجیدمیں ہے:

"وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِجَالِکُمْ فَاِنْ لَمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَاَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآئِ".

 (سورۃالبقرۃ، الآیۃ: 282پاره :3)

       اعلاء السنن میں ہے:

"البینة علی المدعي و الیمین علی من أنکر  .... هذا الحدیث قاعدۃ کبیرۃ من قواعد الشرع."

( کتاب الدعویٰ،ج: 15،ص: 350، ط: ادارۃ القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلاينافي ما قبله."

(كتاب الطلاق،باب الكنايات،ج:3، ص:305،ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں